طریقہِ نماز احادیث کی روشنی میں
طریقہ نماز سے متعلق مشہور حدیثِ ابو حمید الساعدی، سند کی تحقیق اور شبہات کا ازالہ
- صف بندی کے مسائل
- اذان و اقامت کا مسنون طریقہ
- جہری نمازوں میں اونچی آواز میں آمین کہنا نبیﷺ اور صحابہ کی ایک عظیم سنت
- بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنا
- وضو میں جرابوں پر مسح
- صف بندی اور “صف دری”!
- وتر کی مسنون رکعات
- نماز وتر پڑھنے کا مسنون طریقہ
- مرد و عورت کی نماز میں فرق اور آلِ تقلید
- قنوتِ وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا
- وتر کے بعد ایسی دعا جس کا پڑھنا چھوڑ دیا گیا
- نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا
- رسول کریم ﷺ سے وفات تک رفع الیدین کا ثبوت
- مانعین رفع الیدین کا علمی محاسبہ – حصہ اول
- مانعین رفع الیدین کا علمی محاسبہ – حصہ دوئم
- رفع یدین کے خلاف ایک نئی روایت : اخبار الفقہاء والمحدثین؟
- کیا ترک رفع یدین قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟
- رفع یدین پر حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ اورحدیث صلوۃ التسبیح پر ایک نظر
- ترکِ رفع یدین اور “تفسیر” ابنِ عباس
- طاہر القادری صاحب اور رفع یدین کا مسئلہ
- حدیث [من کان لہ امام فقرأۃ الامام لہ قراۃ] کا تحقیقی جائزہ
- باجماعت نماز یا فجر کی سنتیں ؟
- آٹھ رکعات نماز تراویح پرناقابل تردید دلائل
- تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہی ہیں
- آٹھ رکعات تراویح اور غیر اہلِ حدیث علماء
- مسئلہ تراویح کے ایک اشتہار پر نظر
- نفلی نماز گھر میں پڑھنے اور قیام اللیل کی فضیلت
- مسافتِ نمازِ قصر اور مدتِ قصر
- نماز میں عورت کی امامت
- سفر میں نمازِ قصر کا مسئلہ
- کیا مقتدی بھی سمع اللہ لمن حمدہ کہے گا؟
- مُدرکِ رکوع کی رکعت کا حکم
- فرض نماز کے بعد ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دعا کرنا
- صفوں کو سیدھا رکھنے سے متعلق احادیث
- نمازِ جمعہ سے پہلے اور بعد نماز
- دفاع حدیث: خطبہ جمعہ کے دوران آنے والا دو رکعتیں پڑھے گا
- نمازظہرکا وقت
- نماز عصر کا وقت
- نماز فجر کا مسنون وقت
- فجر کی دو رکعات اور عصر سے پہلے چار رکعات (سنتوں) کی فضیلت
- چار سنتیں دو دو کر کے پڑھنا افضل ہے
- سجدہِ تلاوت سنت ہے یا واجب؟
- عید گاہ کو جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیریں کہنے کا بیان
- تکبیرات عیدین میں رفع یدین کا ثبوت
- فرض نمازیں اور ان کی رکعات
- عصر کے بعد دو رکعتوں کا ثبوت
- فرض نماز کے بعد اذکار کی فضیلت
- رکوع و سجود کی دعائیں
- نماز جنازہ کے بعض مسائل
- ننگے سر نماز پڑھنا کیسا ہے؟
- نماز میں رفع یدین اور مدینہ منورہ کی کتاب
- نماز میں قرآن کی آیات کا تصدیقی جواب
- کیا قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
- تکرارِ نمازِ جنازہ کا ثبوت
- کیا نماز کے دوران سلام کا جواب دینا جائز ہے؟
- کیا امام کی نماز فاسد ہونے سے مقتدی کی نماز فاسد ہوجاتی ہے؟
- نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں – ایک سنت مظلومہ
- مغرب سے پہلے دو رکعتیں – مانعین کے دلائل کا جائزہ
- نمازِ زلزلہ
- تین نمازیں
- اذان و اقامت کا مسنون طریقہ
- جہری نمازوں میں اونچی آواز میں آمین کہنا نبیﷺ اور صحابہ کی ایک عظیم سنت
- بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنا
- وضو میں جرابوں پر مسح
- صف بندی اور “صف دری”!
- وتر کی مسنون رکعات
- نماز وتر پڑھنے کا مسنون طریقہ
- مرد و عورت کی نماز میں فرق اور آلِ تقلید
- قنوتِ وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا
- وتر کے بعد ایسی دعا جس کا پڑھنا چھوڑ دیا گیا
- نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا
- رسول کریم ﷺ سے وفات تک رفع الیدین کا ثبوت
- مانعین رفع الیدین کا علمی محاسبہ – حصہ اول
- مانعین رفع الیدین کا علمی محاسبہ – حصہ دوئم
- رفع یدین کے خلاف ایک نئی روایت : اخبار الفقہاء والمحدثین؟
- کیا ترک رفع یدین قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟
- رفع یدین پر حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ اورحدیث صلوۃ التسبیح پر ایک نظر
- ترکِ رفع یدین اور “تفسیر” ابنِ عباس
- طاہر القادری صاحب اور رفع یدین کا مسئلہ
- حدیث [من کان لہ امام فقرأۃ الامام لہ قراۃ] کا تحقیقی جائزہ
- باجماعت نماز یا فجر کی سنتیں ؟
- آٹھ رکعات نماز تراویح پرناقابل تردید دلائل
- تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہی ہیں
- آٹھ رکعات تراویح اور غیر اہلِ حدیث علماء
- مسئلہ تراویح کے ایک اشتہار پر نظر
- نفلی نماز گھر میں پڑھنے اور قیام اللیل کی فضیلت
- مسافتِ نمازِ قصر اور مدتِ قصر
- نماز میں عورت کی امامت
- سفر میں نمازِ قصر کا مسئلہ
- کیا مقتدی بھی سمع اللہ لمن حمدہ کہے گا؟
- مُدرکِ رکوع کی رکعت کا حکم
- فرض نماز کے بعد ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دعا کرنا
- صفوں کو سیدھا رکھنے سے متعلق احادیث
- نمازِ جمعہ سے پہلے اور بعد نماز
- دفاع حدیث: خطبہ جمعہ کے دوران آنے والا دو رکعتیں پڑھے گا
- نمازظہرکا وقت
- نماز عصر کا وقت
- نماز فجر کا مسنون وقت
- فجر کی دو رکعات اور عصر سے پہلے چار رکعات (سنتوں) کی فضیلت
- چار سنتیں دو دو کر کے پڑھنا افضل ہے
- سجدہِ تلاوت سنت ہے یا واجب؟
- عید گاہ کو جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیریں کہنے کا بیان
- تکبیرات عیدین میں رفع یدین کا ثبوت
- فرض نمازیں اور ان کی رکعات
- عصر کے بعد دو رکعتوں کا ثبوت
- فرض نماز کے بعد اذکار کی فضیلت
- رکوع و سجود کی دعائیں
- نماز جنازہ کے بعض مسائل
- ننگے سر نماز پڑھنا کیسا ہے؟
- نماز میں رفع یدین اور مدینہ منورہ کی کتاب
- نماز میں قرآن کی آیات کا تصدیقی جواب
- کیا قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
- تکرارِ نمازِ جنازہ کا ثبوت
- کیا نماز کے دوران سلام کا جواب دینا جائز ہے؟
- کیا امام کی نماز فاسد ہونے سے مقتدی کی نماز فاسد ہوجاتی ہے؟
- نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں – ایک سنت مظلومہ
- مغرب سے پہلے دو رکعتیں – مانعین کے دلائل کا جائزہ
- نمازِ زلزلہ
- تین نمازیں
نماز کے بعد مسنون اذکار
نماز کی اہمیت
نماز کی اہمیت کے پیش نظر اللہ پاک نے اس کا ذکر اپنی کتاب میں ۹۹مرتبہ کیا ہے ، اور جوچیز جتنی اہمیت رکھتی ہے اسی قدر اس کا اہتمام ہوتا ہے ،اللہ نے سارے احکام فرش پر اُتارے ،روزے کا حکم فرش پر اُتارا،زکاة کا حکم فرش پر اُتارا ،حج کا حکم فرش پر اُتارا ،پورا قرآن فرش پر اُتارا،پوری شریعت فرش پر اُتاری لیکن جب نماز کا تحفہ دینے کی باری آئی تو اللہ پاک نے اپنے نبی کو عرش پر بلایا....
غزوہ احزاب کے موقع سے جنگی مشغولیت کی وجہ سے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی نماز جاتی رہی اورآپ بروقت نماز عصر ادا نہ کرسکے تو آپ کو اِس کا اتنا افسوس ہوا کہ آپ نے اُن کے حق میں بددعا فرمائی ملأ اللہ بیوتھم وقبورھم نارا کماحبسونا وشغلونا عن الصلاة الوسطی اللہ ان کے گھروں اوران کی قبروں کوآگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر سے مشغول کردیا ، حالانکہ یہی نبی ہیں کہ اہل طائف نے لہولہان کردیاتھا پھر بھی اُن کے حق میں ہدایت کی دعا کی تھی جبکہ یہاں بد دعا کررہے ہیں ....کیوں؟ اس لیے کہ نماز آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی،آپ کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو نماز کی طرف جلدی کرتے تھے اوربلال ؓ سے فرماتے کہ بلال! اذان دو تاکہ نماز کے ذریعہ راحت ملے ۔
نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ کوئی ایسی عبادت نہیں جس کی ادائیگی کو ترک کرنے پر بچے کو مارنے کا حکم وارد ہوا ہو سوائے نماز کے ،چنانچہ پیارے نبی نے فرمایاکہ اپنے بچے کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دیں اوردس سال کی عمر میں نماز کی پابندی نہ کرنے پر ان کی پٹائی کریں ۔
معراج کی رات اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا گذر جبریل علیہ السلام کے ساتھ ایسی قوم سے ہوا جن کے سر پتھر سے توڑے جارہے تھے ،پھر وہ درست ہوجاتے ،پھر توڑے جاتے ،حضور پاک صلى الله عليه وسلم نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایاکہ یہ وہ لوگ ہیں جونماز میں سستی کرتے تھے ۔
کل قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کے بارے میں پوچھ گچھ ہونے والی ہے ،اگر نماز ٹھیک نکلی تو سارے اعمال ٹھیک اوراگرنماز خراب نکلی تو سارے اعمال رد کردئیے جائیں گے ۔انسان نے کتنی بھی اچھائیاں کی ہوں لیکن نماز جو ایک مسلمان کی پہچان ہے یہ نہ رہی .... تو ہمیں ٹرخا دیاجائے گا ۔ بلکہ جب جنتی جنت میں اورجہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو جنتی اپنے سامنے جہنمیوںکی چلاہٹ اورآہ وفغاں کو سن کر پوچھیں گے ماسلککم فی سقر ؟ تمہیں جہنم میں کس چیز نے داخل کیا ؟ جانتے ہیں اُن کا پہلا جواب کیا ہوگا ؟ قالوا لم نک من المصلین کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوںمیں سے نہیں تھے ۔
نماز کی اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم یات طیبہ کے آخری دن جبکہ آپ سخت تکلیف سے دوچار تھے ،اورلمحہ بلمحہ تکلیف بڑھتی ہی جارہی تھی ،ایسی کربناک حالت میں صحابہ کرام کو وصیت فرماتے ہیں الصلاة الصلاة وماملکیت ایمانکم نماز کی پابندی کرتے رہنا ،نماز کا خیال رکھنا اور اپنے ماتحتوںکے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ۔
فرض کیجئے کہ کسی اچھے انسان نے نہایت تنگی کی حالت میں آپ کی مدد کی ہو ،اُس کے تئیں آپ کا رویہ کیسا ہوگا ؟ ظاہر سی بات ہے کہ آپ کے دل میں اُس کی محبت بیٹھ جائے گی ،اورآپ کی زبان پر ہمیشہ اس کا نام رہے گا ،اب خدارا ہمیں بتائیے ! جس ذات نے انسان کو معمولی پانی کے ایک قطرہ سے بنایا،نہایت تنگ جگہ سے نکالا ،وہ ننگا بدن تھا ،ننگا پیر تھا ،خالی ہاتھ تھا ،کمزوراورنحیف تھا ،عقل وشعور سے عاری تھا ،اللہ پاک نے اس کی تربیت کی ،عقل وشعوردیا،صحت وعافیت دی ، بیوی بچے دئیے ، مال ودولت دیا، ہر طرح کی ظاہری اورباطنی نعمتوں سے مالامال کیا ، اور سب سے بڑھ کر اپنی ذات کی پہچان دی ....کیا اِن نعمتوں کا کوئی حق ادا کرسکتا ہے ....قطعا ً نہیں ....نماز دراصل اسی منعم حقیقی کے حق کا اعتراف اور اس کے احسانات کا شکریہ ہے ۔
احکام و مسائل
قبلے کی طرف منہ کرنے کی فرضیت:
قبلہ رخ ہونا نماز کی شرط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض اور نفل دونوں قسم کی نمازوں میں اپنا رخ کعبے کی جانب فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم بھی ارشاد فرمایا:
إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّر 1
“جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو( اچھے انداز سے) مکمل وضو کر، پھر قبلے کی طرف منہ کر اور تکبیر (تحریمہ) کہہ”
سواری پر نفل نماز میں استقبال قبلہ ضروری نہیں:
البتہ سفر میں قبلہ رخ ہوئے بغیر بھی سواری پر بیٹھے بیٹھے نفل یا وتر کی نماز ادا کرلینا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دورانِ سفرسواری پر بیٹھ کرنفل اور وتر پڑھ لیا کرتے تھے خواہ اس کا رخ مشرق و مغرب یا کسی بھی طرف ہوتا۔2
قرآن کی یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے۔3
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (سورۃ البقرۃ آیت 115)
“تو تم جدھر بھی رخ کرو، ادھر اللہ کا چہرہ ہے”۔
لیکن اگر سواری کو قبلہ رخ کرنا ممکن ہو تو نماز شروع کرنے سے پہلے کعبے کی طرف منہ کر لینا افضل ہے۔( اس لیے کہ) کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز کے آٖغاز میں “اللہ اکبر” کہتے وقت اونٹنی سمیت قبلہ رخ ہو جاتے، اس کے بعداپنی نماز جاری رکھتے خواہ سواری کا رخ کسی بھی طرف پھر جاتا4 پھر سر کے اشارے سے رکوع و سجود ادا فرماتے اور سجدے کے لیے سر کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لیتے تھے5۔ جمہور علماء کے نزدیک ہر قسم کے سفر میں سواری پر نفلی نماز پڑھنا جائز ہے خواہ وہ سفر اتنا تھوڑا ہی ہو کہ اس میں فرض نماز قصر نہ کی جا سکے۔
فرض نماز سواری پر جائز نہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض نماز سواری سے نیچے اتر کر اور قبلہ رخ ہو کر ادا فرماتے تھے اس لیے فرض نماز سواری پر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو، مثلا ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کے دوران اترنا ممکن نہ ہو اور نماز کا وقت نکل جانے کا ڈر ہو تو وہیں نماز ادا کر لینی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
شدیدخوف کی حالت میں نماز کیسے ادا کی جائے:
دشمن کی کثرت یا شدید خوف وغیرہ کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جا سکے تو جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کر لینی چاہیے، ایسے حالات میں سواری سے اترنے اور قبلہ رخ ہونے وغیرہ کی کچھ پابندی نہیں، فرض نماز خواہ سواریوں پر بیٹھے ادا کی جائے یا پیدل چلتے ہوئےپڑھی جائے اور رخ قبلہ کی جانب رہے یا نہ رہے بہرحال نماز ادا ہو جائے گی۔بلکہ سخت لڑائی میں تو سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے6فرمایا:
إذا اختلطوا فانما هو التكبير والاشارة بالرأس7
جب (فوجیں) گتھم گتھا ہو جائیں تو پھر بس تکبیر اور سرسے اشارہ (ہی نماز ادا کرنے کے لیے کافی) ہے”
قبلہ کی حدود
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت کو قبلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ 8
“مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت قبلہ ہے”
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کو دیکھ رہا ہو اسے اپنا رخ ٹھیک ٹھیک اس کی جانب ہی کرنا چاہیے لیکن دور کے رہنے والوں کے لیے فقط درست سمت کا التزام ہی کافی ہے۔
قبلہ کی سمت معلوم کرنے میں غلطی ہونا
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی رفاقت میں تھے۔آسمان پر بادل چھا گیا تو قبلہ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا۔ ہم نے درست سمت معلوم کرنے کی پوری کوشش کے بعدالگ الگ سمت میں نماز ادا کر لی اور اپنی اپنی سمت کو نشان زدہ کر دیا تا کہ صبح ہمیں معلوم ہو کہ کیا ہم نے قبلہ رخ نماز پڑھی ہے یا نہیں۔ صبح ہونے پر معلوم ہوا کہ ہم نے قبلہ کی سمت نماز ادا نہیں کی۔ ہم نے تمام واقعہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔انہوں نے ہمیں نمازلوٹانے کا حُکم نہیں دیا اور فرمایا:
قد أجزأت صلاتكم
“ تمہاری نماز ہو گئی”9
قبلے کی مختصر تاریخ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شروع میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام(سورۃ البقرۃ آیت 144)
“(اے محمد) ہم آپ کا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں منہ کرنے کا حکم دیں گے۔ تو اپنا منہ مسجد حرام (بیت اللہ) کی طرف پھیر لو”
اس آیت کے نزول کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز میں اپنا چہرہ مبارک خانہ کعبہ کی جانب کیا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگ قباء کے مقام میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اچانک ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جانب سے ایک پیغام لانے والا آیا جس نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر آج رات قرآن پاک کی آیت نازل ہوئی ہے جس میں کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خبردار، تم بھی اپنا رخ اسی طرف کر لو۔ چنانچہ پہلے ان کا رخ شام کی جانب تھا، اس کے کہنے پر تمام نمازی گھوم کر قبلہ رخ ہو گئے اور امام بھی گھوم کر سامنے کی طرف آ گیا اور کعبے کی طرف رخ کر لیا۔10
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غلط سمت میں نماز پڑھتے ہوئے شخص کو نماز کے دوران ہی صحیح سمت کی خبر دی جا سکتی ہے اور اگر کسی کو دوران نماز پتہ چل جائے کہ وہ غلط سمت میں نماز پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ اسی وقت اپنا رخ صحیح سمت میں کر لے۔
حوالہ جات:
1۔صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب من رد فقال علیک السلام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ و انہ اذا لم یحسن الفاتحۃ
2۔صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الوتر فی السفر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
3صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
4سنن ابی داؤدکتاب الصلاۃ باب التطوع علی الراحلۃ و الوتر، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1225
5سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ علی الدابۃ فی الطین و المطر، تفصیل کے لیے دیکھیے صفۃ صلاۃ النبی الکتاب الام ص 58
6صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب قولہ عز و جل فان خفتم فرجالا ا و رکبانا فاذا امنتم فاذکروا اللہ
7سنن البیہقی جلد 3 ص 255
8سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء ان ما بین المشرق و المغرب قبلۃ ، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 342
9سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب الاجتھاد فی القبلۃ و جواز التحری فی ذلک، ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل للالبانی حدیث نمبر 291
10صحیح البخاری کتاب الصلاۃ
قبلہ رخ ہونا نماز کی شرط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض اور نفل دونوں قسم کی نمازوں میں اپنا رخ کعبے کی جانب فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم بھی ارشاد فرمایا:
إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّر 1
“جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو( اچھے انداز سے) مکمل وضو کر، پھر قبلے کی طرف منہ کر اور تکبیر (تحریمہ) کہہ”
سواری پر نفل نماز میں استقبال قبلہ ضروری نہیں:
البتہ سفر میں قبلہ رخ ہوئے بغیر بھی سواری پر بیٹھے بیٹھے نفل یا وتر کی نماز ادا کرلینا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دورانِ سفرسواری پر بیٹھ کرنفل اور وتر پڑھ لیا کرتے تھے خواہ اس کا رخ مشرق و مغرب یا کسی بھی طرف ہوتا۔2
قرآن کی یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے۔3
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (سورۃ البقرۃ آیت 115)
“تو تم جدھر بھی رخ کرو، ادھر اللہ کا چہرہ ہے”۔
لیکن اگر سواری کو قبلہ رخ کرنا ممکن ہو تو نماز شروع کرنے سے پہلے کعبے کی طرف منہ کر لینا افضل ہے۔( اس لیے کہ) کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز کے آٖغاز میں “اللہ اکبر” کہتے وقت اونٹنی سمیت قبلہ رخ ہو جاتے، اس کے بعداپنی نماز جاری رکھتے خواہ سواری کا رخ کسی بھی طرف پھر جاتا4 پھر سر کے اشارے سے رکوع و سجود ادا فرماتے اور سجدے کے لیے سر کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لیتے تھے5۔ جمہور علماء کے نزدیک ہر قسم کے سفر میں سواری پر نفلی نماز پڑھنا جائز ہے خواہ وہ سفر اتنا تھوڑا ہی ہو کہ اس میں فرض نماز قصر نہ کی جا سکے۔
فرض نماز سواری پر جائز نہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض نماز سواری سے نیچے اتر کر اور قبلہ رخ ہو کر ادا فرماتے تھے اس لیے فرض نماز سواری پر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو، مثلا ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کے دوران اترنا ممکن نہ ہو اور نماز کا وقت نکل جانے کا ڈر ہو تو وہیں نماز ادا کر لینی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
شدیدخوف کی حالت میں نماز کیسے ادا کی جائے:
دشمن کی کثرت یا شدید خوف وغیرہ کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جا سکے تو جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کر لینی چاہیے، ایسے حالات میں سواری سے اترنے اور قبلہ رخ ہونے وغیرہ کی کچھ پابندی نہیں، فرض نماز خواہ سواریوں پر بیٹھے ادا کی جائے یا پیدل چلتے ہوئےپڑھی جائے اور رخ قبلہ کی جانب رہے یا نہ رہے بہرحال نماز ادا ہو جائے گی۔بلکہ سخت لڑائی میں تو سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے6فرمایا:
إذا اختلطوا فانما هو التكبير والاشارة بالرأس7
جب (فوجیں) گتھم گتھا ہو جائیں تو پھر بس تکبیر اور سرسے اشارہ (ہی نماز ادا کرنے کے لیے کافی) ہے”
قبلہ کی حدود
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت کو قبلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ 8
“مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت قبلہ ہے”
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کو دیکھ رہا ہو اسے اپنا رخ ٹھیک ٹھیک اس کی جانب ہی کرنا چاہیے لیکن دور کے رہنے والوں کے لیے فقط درست سمت کا التزام ہی کافی ہے۔
قبلہ کی سمت معلوم کرنے میں غلطی ہونا
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی رفاقت میں تھے۔آسمان پر بادل چھا گیا تو قبلہ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا۔ ہم نے درست سمت معلوم کرنے کی پوری کوشش کے بعدالگ الگ سمت میں نماز ادا کر لی اور اپنی اپنی سمت کو نشان زدہ کر دیا تا کہ صبح ہمیں معلوم ہو کہ کیا ہم نے قبلہ رخ نماز پڑھی ہے یا نہیں۔ صبح ہونے پر معلوم ہوا کہ ہم نے قبلہ کی سمت نماز ادا نہیں کی۔ ہم نے تمام واقعہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔انہوں نے ہمیں نمازلوٹانے کا حُکم نہیں دیا اور فرمایا:
قد أجزأت صلاتكم
“ تمہاری نماز ہو گئی”9
قبلے کی مختصر تاریخ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شروع میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام(سورۃ البقرۃ آیت 144)
“(اے محمد) ہم آپ کا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں منہ کرنے کا حکم دیں گے۔ تو اپنا منہ مسجد حرام (بیت اللہ) کی طرف پھیر لو”
اس آیت کے نزول کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز میں اپنا چہرہ مبارک خانہ کعبہ کی جانب کیا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگ قباء کے مقام میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اچانک ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جانب سے ایک پیغام لانے والا آیا جس نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر آج رات قرآن پاک کی آیت نازل ہوئی ہے جس میں کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خبردار، تم بھی اپنا رخ اسی طرف کر لو۔ چنانچہ پہلے ان کا رخ شام کی جانب تھا، اس کے کہنے پر تمام نمازی گھوم کر قبلہ رخ ہو گئے اور امام بھی گھوم کر سامنے کی طرف آ گیا اور کعبے کی طرف رخ کر لیا۔10
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غلط سمت میں نماز پڑھتے ہوئے شخص کو نماز کے دوران ہی صحیح سمت کی خبر دی جا سکتی ہے اور اگر کسی کو دوران نماز پتہ چل جائے کہ وہ غلط سمت میں نماز پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ اسی وقت اپنا رخ صحیح سمت میں کر لے۔
حوالہ جات:
1۔صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب من رد فقال علیک السلام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ و انہ اذا لم یحسن الفاتحۃ
2۔صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الوتر فی السفر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
3صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
4سنن ابی داؤدکتاب الصلاۃ باب التطوع علی الراحلۃ و الوتر، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1225
5سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ علی الدابۃ فی الطین و المطر، تفصیل کے لیے دیکھیے صفۃ صلاۃ النبی الکتاب الام ص 58
6صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب قولہ عز و جل فان خفتم فرجالا ا و رکبانا فاذا امنتم فاذکروا اللہ
7سنن البیہقی جلد 3 ص 255
8سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء ان ما بین المشرق و المغرب قبلۃ ، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 342
9سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب الاجتھاد فی القبلۃ و جواز التحری فی ذلک، ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل للالبانی حدیث نمبر 291
10صحیح البخاری کتاب الصلاۃ