شروع اللہ کے بابرکت نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْهِمْ نَارًا ۭ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِيْزًا حَكِيْمًا(4:56)
جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کر دیا انہیں بایقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں ، اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے ۔
لوگو اللہ کا واسطہ قرآن کی آیات کو جب کہ تمھیں سمجھ آجائیں نہ جھٹلانا
علم غیب کا مسئلہ اآج کل کا ایک بہت اہم اور متنازعہ ترین مسئلہ بن گیا ہے ۔میں شکر گزار ہوں اس کریم رب کا جس کی تو فیق سے اآج میں اس موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں اللہ سے دعا ہے کہ الٰہ العالمین مجھے حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور میری خطائو ں اور لغزشوں کو درگزر فرمائے ۔ آمین
نوٹ:احباب سے گزارش ہے کہ ایک بات یاد رکھیں کہ عالم الغیب اور غیب کی خبر دینے والے میں بہت بڑا فرق ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے کہ اگر آپکو کوئی بندہ کوئی ایسی خبر دے جو آپ نہیں جانتے تو یہ بات کوئی بعید نہیں ہے اور اس طرح کہ جب کوئی آپ کو ایسی خبر دے جس سے آپ ناواقف ہیں تو آپ اس سے عالم الغیب نہیں ہونگے۔ اللہ کا نبیﷺ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ اللہ رب العزت عالم الغیوب ہیں اور اللہ رب العزت غیب کی خبریں نبیﷺ کو بذریعہ وحی دیتے اور اللہ کے نبی جناب محمد ﷺ انھیں ہم تک پنہچاتے۔ وضاحت کے لیے قراآن کی آیات ملاحظہ فرمائیں۔
(اے محمد) ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں، ورنہ تم اس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے، 43 اور نہ تم اس وقت حاضر تھے جب ان کے درمیان جھگڑا برپا تھا۔(3:44)
قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ ۭقُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ(6:50)
اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ان سے کہو، “میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ 31 پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ 32 کیا تم غور نہیں کرتے ؟ ؏
غیب کا جاننے والا اکیلا اللہ ہے اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا مگر جس کو اللہ غیب کی کوئی بات بذریعہ وحی بتا دے۔یہاں رب کائنات فرماتے ہیں۔
کہ غیب کی کنجیاں صرف اللہ کے پاس ہیں اس کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا اور وہ زمین و زمن ، آسمان اور کائنات کے ذرے ذرے کا جاننے والا ہے۔
وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ(6:59)
اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ بحر و بر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو ۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو ۔ خشک و تر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔
وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ۭ وَيَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ ڛ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۭوَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۭ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۭوَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ(6:73)
وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے ۔ 46 اور جس دن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اسی دن وہ ہو جائے گا ۔ اس کا ارشاد عین حق ہے ۔ اور جس روز صور پھونکا جائیگا 47 اس روز بادشاہی اسی کی ہوگی،48 وہ غیب اور شہادت 49 ہر چیز کا عالم ہے اور دانا اور باخبر ہے۔
قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۭوَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْر ِ ٻ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ ڔ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ(7:188)
اے محمد، ان سے کہو کہ میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا ۔ میں 145 تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں ۔
مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی جناب محمد الرسول اللہﷺ بھی غیب نہیں جانتے مگر جو اللہ وحی کر دے ۔ ایک اعتراض یہاں رفو کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ لوگ اللہ کے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ کو غیب دان ثابت کر کہ اللہ کی صفات میں شامل کر کے غلو کرتے ہیں اللہ ہم سب کو معاف فرمائے ۔ اور وہ اس کو باعث ثواب سمجھتے ہیں اور ان سے دلائل مانگے جائیں تو کہتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ نے بہت سی غیب کی خبریں دیں جیسے قیامت کی نشانیاں وغیرہ ۔ تو ان سے گزارش ہے کہ بھائی قرآن سے اپنے عقیدے کی اصلاح کریں کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ وہی باتیں بتاتے ہیں غیب کی جو ہم (اللہ) ان پر وحی کرتے ہیں ۔ تومزید قرآنی آیات پر غور فرمائیں ۔
اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ(9:78)
کیا یہ لوگ جانتے نہیں ہیں کہ اللہ کو ان کے مخفی راز اور ان کی پوشیدہ سرگوشیاں تک معلوم ہیں اور وہ تمام غیب کی باتوں سے پوری طرح باخبر ہے؟
وَيَقُوْلُوْنَ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۚ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوْا ۚ اِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ(10:20)اور یہ جو وہ کہتے ہیں کہ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی، 27 تو ان سے کہو غیب کا مالک و مختار تو اللہ ہی ہے، اچھا، انتظار کرو ، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔
وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ اللّٰهُ خَيْرًا ۭ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ښ اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ(11:31)
اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعوٰی ہے کہ میں فرشتہ ہوں ۔ 37 اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی ۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے واضع الفاظ میں بتایا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب جاننے والا نہیں ۔ اب بھی جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی ولی یا نبی غیب جانتا ہے تو وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتا ہے اسکو اللہ کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ یہ بات یاد رکھیے کہ قرآن کا انکار کفر ہے ۔آئیے قرآن کی روشنی میں اپنا عقیدہ بنائیے قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے سوا آسمان اور زمین غرض ساری کائنات کا غیب جاننے والا کوئی نہیں ہے ۔
اللہ رب العزت نے یہاں سورۃ یوسف میں بھی بتایا کہ اے نبیﷺ آپ کو ہم نے یوسف کا اور اسکے بھائیوں کا حال سنایا ورنہ تم اس سے پہلے اس کی خبر نہیں رکھتے تھے ۔
میرے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ شان والے ہیں سارے انبیاء شان والے ہیں لیکن اللہ کی صفت ہے غیب کا جاننا اس میں کوئی شریک نہیں ۔ قرآن کی اگلی آیت سے پہلے ذرا ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں
شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات ؎
ہم مسلمانوں میں ایک مغالطہ پایا جاتا ہے کہ شاید نبی ﷺ کےعلم غیب کا انکار نبیﷺ سے دشمنی /بغض و عناد معاذاللہ
اللہ کے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے کہ غلو سے بچو کیونکہ پچھلی قومیں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں۔
مسلم 6784سنن نسائی 3075
مثال 1:اس حدیث کی رو سے مثال عرض کرتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ سے محبت کیجئیے جو نبی کریم ﷺ سے محبت نہیں کرتا اللہ کی قسم وہ مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ لیکن نبی ﷺ سے محبت اس طرح کیجئے جس طرح اللہ اور اللہ کے نبیﷺ نے حکم دیا اگر ہم نے غلو کیا تو ہم بھی ہلاک ہوجائینگے ۔ عیسائیوں کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ ہر مسلمان اس بات سے متفق ہے کہ جو شخص عیٰسیؑ کو اللہ کا بیٹا مانتا ہے وہ کافر ہے لیکن !
یہاں میرا ایک سوال ہے کہ کیا عیسائیوں نے نبی عیسیؑ کو اللہ کا بیٹا نفرت کی وجہ سے قرار دیا؟ ۔۔۔۔نہیں ۔ عیسائیوں نے عیسیؑ سے محبت کی لیکن اتنا محبت کی کہ غلو کر بیٹھے اور عیسیؑ کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ معاذاللہ ۔۔۔۔اللہ پاک ہے ان کے شرک سے جو وہ کرتے ہیں۔ ۔۔لیکن وہ غلو کر کے دنیا و آخرت میں ہلاک ہوگئے۔
دیکھئیے اللہ رب العزت سب سے بلند ہے ۔ اللہ بزرگ و برتر ہے اللہ عظیم ہے مجھے قرآن کی ایک آیت یاد آتی ہے جو اس مثال سے پہلے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ قرآن میں فرماتے ہیں لوگو تم نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کرنے کا حق تھا ۔
سورۃ الحج 74
دیکھئیے ہم نبی کریم ﷺ کے بارے میں اتنا حساس ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے بارے میں اگر کوئی قرآن سے بھی بیان کر دے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ اللہ کے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ غیب نہیں جانتے تو ہم اللہ کی واضع آیات کا انکار کر جاتے ہیں لیکن اللہ کے بارے میں بے فکر ی سے جس کو مرضی آئے اللہ کی صفات میں شریک کر دیتے ہیں کیا میرے اللہ کی عزت کی کوئی چادر نہیں؟ کیا میرے اللہ کے اپنے اختیارات نہیں؟ کیا رب کائنات نے اپنے سارے اختیارات دنیا میں بانٹ دیے ؟ ۔۔۔۔۔نہیں میرا رب بہت بلند ہے ۔۔۔ اس شرک سے جو لوگ اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں ۔۔۔
مثال 2 : دیکھئیے اللہ کے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ شافعی محشر ہیں ۔ ہاں ہیں نا۔ جی اب اگر ۔۔میں یا کوئی اور اللہ کے نبی جناب موسیؑ کے بارے میں کہے کہ
میں مانتا ہوں کہ جناب محمدﷺ شافع محشر ہیں اور رحمۃ اللعالمین ہیں لیکن ۔۔ موسیؑ بھی رحمۃ اللعالمین اور شافعی محشر ہیں ،
نوٹ: (کل کو کوئی میری کتاب کا حوالہ دے کر یہ نہ کہے کہ میں نے موسیٰؑ کو رحمۃ اللعالمین کہا ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا میں ایک مثال دے رہا ہوں سمجھانے کیلئیے )۔
دیکھئیے اگر کوئی یہ جملہ کہے کہ موسیٰؑ بھی شافعی محشر ہیں حالانکہ اس نے نبی ﷺ کے رحمۃ اللعالمین ہونے کا انکار نہیں کیا پھر بھی وہ گستاخ رسول ؐ کہلائے گا کیوں؟
کیونکہ اس نے اللہ کے نبی جناب محمد الرسول ﷺ کی شان موسیؑ کو دی ۔ بالکل اسی طرح جیسے نبی کریم ﷺ کی شان موٰسی ؑ کو دینے سے نبی کریم ﷺ کی گستاخی ہے ۔
اسی طرح میرے رب العزت کی شان کسی نبی یا ولی یا کسی بھی ہستی کو دینا شرک ہے ۔ اور اللہ کی قسم میں یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا اللہ فرماتے ہیں
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ(27:65)
ان سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا ۔ 83 اور وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے۔
میں نے اللہ رب العزت کے فضل سے دعویٰ کیا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب کا جاننے والا نہیں ۔جس کے لیے میں نے بہت سی مثالیں قرآن و حدیث میں سے دیں لیکن اب میں اللہ کی مخلوقات میں سے بتاوں گا کہ کیسے اللہ کے سوا کوئ غیب نہیں جانتا ۔
کیا اللہ کے نبی غیب جانتے ہیں؟
اللہ پاک نے پورا دین کھول کر بیان کیا مجھے اللہ بزرگ برتر کی قسم اللہ نے پورا توحید کما حقہ بیان کردیا ہے ۔ اللہ پاک قرآن میں ذکر کرتے ہیں اپنے تمام انبیاء کا کہ ہم(اللہ) تمام پیغمبروں کو قیامت کے دن اکٹھا کریں گے ۔ اور ان سے جو سوال ہونا ہے اور جو انھوں نے جواب دینا ہے اللہ نے اپنی لاریب کتاب میں بیان فرما دیا ہے ۔
لوگو ! جو اللہ کی آیات کا انکار کریگا بے شک اس کا ٹھکانہ جہنم ہے تعصبات بغض و عناد کی جڑیں کاٹ کر اللہ کے لیے کتاب اللہ کی طرف لوٹ آئو۔
يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ(5:109)
جس روز 122 اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ، 123 تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں ، 124 آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں ۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیھم السلام بھی غیب نہیں جانتے۔ آئیے کچھ انبیاء کا علیحدہ ذکر کرتے ہیں ۔
کیا آدم ؑ غیب جانتے تھے ؟
قرآن آدم ؑ کا واقعہ بیان کرتا ہے اللہ فرماتے ہیں آدم ؑ اور حوا ؑ کا ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گیا۔ اگر آدم ؑ غیب جانتے ہوتے تو کبھی پھل نہ کھاتے جس سے انکا ستر کھل جاتا۔
فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ۭوَنَادٰىهُمَا رَبُّهُمَآ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ لَّكُمَآ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ(7:22)
اس طرح دھوکا دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پر لے آیا۔ آخرِکار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنّت کے پتّوں سے ڈھانکنے لگے۔
تب ان کے رب نے انہیں پکارا کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟
ایک اور جگہ بھی قرآن یہ واقعہ بیان کرتا ہے
فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى(20:121)
آخر کار دونوں﴿میاں بیوی﴾ اس درخت کا پھل کھاگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فورا ہی ان کے ستر ایک دوسرے کے آگے کھل گئے اور لگے دونوں اپنے آپ کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے۔ 101 آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ راست سے بھٹک گیا۔
کیا نوحؑ غیب جانتے تھے؟
میرے رب العالمین حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ قرآن میں بیان فرماتے ہیں۔
وَهِىَ تَجْرِيْ بِهِمْ فِيْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ ۣ وَنَادٰي نُوْحُۨ ابْنَهٗ وَكَانَ فِيْ مَعْزِلٍ يّٰبُنَيَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَلَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِيْن(11:42)
قَالَ سَاٰوِيْٓ اِلٰي جَبَلٍ يَّعْصِمُنِيْ مِنَ الْمَاۗءِ ۭ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنََ(11:43)
کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی ۔ نوح کا بیٹا دور فاصلے پر تھا۔ نوح نے پکار کر کہا بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ، کافروں کے ساتھ نہ رہ۔
اس نے پلٹ کر جواب دیا میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔“ نوح نے کہا ” آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے۔“ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔
پھر نوح علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی
وَنَادٰي نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِيْ مِنْ اَهْلِيْ وَاِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِيْنَ(11:45)
نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے، یقیناً تیرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے
پھر اللہ کا جواب سنئیے اللہ کی قسم اگر نوح علیہ السلام غیب جانتے ہوتے تو ایسی بات نہ کہتے جن کا ان کو علم نہ تھا۔ اور قرآن بولتا ہے مجھے اللہ کی قسم اللہ کا قرآن بھی سچا اللہ کا نبی نوح علیہ السلام بھی سچا تو پھر کیوں سنیے قرآن کہتا ہے اللہ " اے میرے ربّ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں ۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔"
قَالَ يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ۚ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ڶ فَلَا تَسْـــَٔـلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنِّىْٓ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَقَالَ رَبِّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـــَٔـلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ ۭ وَاِلَّا تَغْفِرْ لِيْ وَتَرْحَمْنِيْٓ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ۔(11:46،47)
جواب میں ارشاد ہوا ” اے نوح ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے49، لہٰذا تو اس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے ۔ نوح نے فوراً عرض کیا اے میرے ربّ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں ۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔
لوگو ! غیب صرف میرا اکیلا رب جانتا ہے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
اللہ کی قسم لوگو ! اگر نوح علیہ السلام غیب جانتے ہوتے اور جانتے ہوتے کہ انکا بیٹا بھی غرق ہونے والوں میں ہوجائیگا تو کبھی نہ فرماتے!
قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِيْ كَذَّبُوْنِ۔ فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَّنَجِّـنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ
آپ نے کہا اے میرے پروردگار! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا۔ پس تو مجھ میں اور ان میں کوئی قطعی فیصلہ کردے اور مجھے اور میرے باایمان ساتھیوں کو نجات دے۔
کیا عزیر ؑ غیب جانتے تھے؟
اللہ رب العزت نے عزیر ؑ اور بستی والوں کا واقعہ یوں بیان فرمایا۔
اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَةٍ وَّهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا ۚ قَالَ اَنّٰى يُـحْيٖ ھٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَـةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ ۭ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۭ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۭ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَـنَّهْ ۚ وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْــمًا ۭ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(2:259)
یا پھر مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو ، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا، جو اپنی چھاتیوں پر اوندھی گری پڑی تھی۔ 293 اس نے کہا: یہ آبادی، جو ہلاک ہوچکی ہے، اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا ؟ 294 اس پر اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا ۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا: بتاؤ ، کتنی مدّت پڑے رہے ہو؟ اس نے کہا: ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا۔ فرمایا: تم پر سو برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں ۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیّر نہیں آیا ہے ۔ دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو ﴿کہ اسکا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے ﴾ ۔ اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں 295 ۔ پھر دیکھو کے ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں ۔ اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایاں ہوگئی ، تو اس نے کہا میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ غیب کا جاننے والا اکیلا اللہ رب العالمین ہے۔
کیا اصحاب کہف غیب جانتے تھے؟
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اصحاب کہف کا تذکرہ کیا کہ وہ تین سو نو 309 سال تک سوئے رہے ۔
وَلَبِثُوْا فِيْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا(18:25)
اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور ﴿کچھ لوگ مدت کے شمار میں﴾ 9 سال اور بڑھ گئے ہیں۔
پھر اللہ نے انکو اٹھایا ااور پوچھا کہ تم کتنی دیر حالت نیند میں رہے کہنے لگے ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ ۔ یعنی اصحاب کہف کو اپنی بھی خبر نہیں تھی ۔ یہاں یہ ثابت ہوا کہ اصحاب کہف بھی غیب نہیں جانتے تھے ۔
وَكَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ لِيَتَسَاۗءَلُوْا بَيْنَهُمْ ۭ قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۭ قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۭ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ ۭ فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖٓ اِلَى الْمَدِيْنَةِ فَلْيَنْظُرْ اَيُّهَآ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْيَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا(18:19)
اسی طرح ہم نے انہیں جگا کر اٹھا دیا کہ آپس میں پوچھ گچھ کرلیں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ کیوں بھئی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم کہنے لگے کہ تمہارے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم اللہ تعالٰی ہی کو ہے اب تم اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ چاندی دے کر شہر بھیجو وہ خوب دیکھ بھال لے کہ شہر کا کونسا کھانا پاکیزہ تر ہے پھر اسی میں سے تمہارے کھانے کے لئے لے آئے، اور وہ بہت احتیاط اور نرمی برتے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے
کیا یوسف ؑ غیب جانتے تھے؟
اللہ رب العزت قرآن میں یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہیں ۔
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۭ قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(12:23)
اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے، یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازہ بند کر کے کہنے لگی لو آجاؤ یوسف نے کہا اللہ کی پناہ! وہ میرا رب، مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے۔ بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا۔
یہاں اللہ یوسف ؑ کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ یوسف علیۃ السلام کو عورت نے دعوت گناہ دی سات دروازوں میں بلایا ۔
لوگو! اللہ کی قسم اگر میرے یوسف علیہ السلام جانتے ہوتے کہ عورت دعوتِ گناہ دے گی تو میرا ایمان ہے کہ اللہ کی قسم یوسف علیہ السلام چل کے وہاں نہ جاتے ۔ اگر یوسف علیہ السلام چل کے گئے لوگو ماننا پڑے گا ۔
غیب جاننے والا اکیلا رب ہے اس کے سوا کوئی نہیں
قرآن کہتا ہے۔
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ(27:65)
کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھ کھڑے کئے جائیں گے۔
کیا ابراھیم ؑ غیب جانتے تھے؟
المختصر بات کر رہا ہوں اس بات کے پیش نظر کے کتاب لمبی ہوگئی تو پڑھنے والوں کو مشکل ہوگی ۔قرآن کہتا ہے ۔
فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ(37:103)
آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا۔
لوگو ! میرا سوال ہے اگر ابراہیم علیہ السلام کو پتا تھا اور وہ غیب جانتے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ اسماعیل ؑ کی جگہ مینڈھا ذبح ہوگا تو پھر مجھے رب بزرگ برتر کی قسم یہ ایک کھیل تماشا تو بن سکتا ہے ۔ امتحان نہیں ہو سکتا ۔ اگر امتحان تھا اور بے شک امتحان اس وقت بنے گا جب یہ مان لیا جائے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو معلو م نہیں تھا ۔ اگر خلیل اللہ کو معلوم نہیں تھا لوگو پھر اللہ کی آیتوں کی تکذیب نہ کیجئیے مانئیے کہ
غیب کا جاننے والا اکیلا واحد و یکتا بزرگ و برتر ،مالک کائنات ، خالق کائنات ہے اسکے سوا کئی غیب جاننے والا نہیں۔
کیا یعقوب ؑ غیب جانتے تھے؟
المختصر ! اگر یعقوب علیہ السلام غیب جانتے ہوتے تو یوسف علیہ السلام (عزیز مصر) کہ غم میں اتنا نہ روتے کے انکی آنکھوں کی بینائی چلی جاتی ۔
کیا امام الانبیاء غیب جانتے تھے؟
قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ ۭقُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ(6:50)
اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ان سے کہو، “میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ 31 پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ 32 کیا تم غور نہیں کرتے ؟ ؏
قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۭوَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْر ِ ٻ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ ڔ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ(7:188)
اے محمد، ان سے کہو کہ میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا ۔ میں 145 تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں ۔
کیا عمر ؓغیب جانتے تھے؟
اگر عمر رضی اللہ عنہ غیب جانتے ہوتے تو اپنے قاتل کو پکڑوا لیتے کیونکہ اگر انسان کو معلوم ہو کے اسے قتل کیا جائے گا یعنی خود کو جان بوجھ کر قتل کروانا خود کشی ہے اور وہ حرام ہے ۔
کیا حسن ؓ غیب جانتے تھے؟
حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دے کر شہید کیا گیا ۔ لوگو ! اگر حسن رضی اللہ عنہ غیب جانتے تھے تو !
میرا سوال ہے کوئی حل کر دو کہ اگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ کھانے میں زہر ہے تو زہرآلود کھانا کھایا کیوں؟ کیونکہ اگر پتا ہو کہ کھانے میں زہر ہے اور زہر آلود کھانا جان بوجھ کر کھایا جائے تو یہ خود کشی ہوتی ہے ۔
میرا ایمان ہے میرے حسن رضی اللہ عنہ نے شہید ہیں ۔ اور یہ اس وقت مانا جائیگا جب عقیدہ ہو کہ اللہ رب العالمین کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا ۔
کیا فرشتے غیب جانتے ہیں ؟
اللہ رب العزت قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان فرماتے ہیں ۔ اللہ فرماتے ہیں جب ہم نے آدم علیہ السلام کو کچھ نام سکھائے پھر فرشتوں سے پوچھا کہ ان ان چیزوں کے نام بتائو اگر تم سچے ہو ۔ فرشتوں نے جواب دیا اللہ ہم نہیں جانتے ہم تو بس وہی جانتے ہیں جو تو نے ہمیں بتایا۔ اس قرآن کی آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتے بھی غیب نہیں جانتے ۔ ہاں اللہ کوئی غیب کی بات انکو بتا دے تو وہ اللہ رب ہے ۔ جیسا کہ بہت سی غیب کی خبریں اللہ نے جبرائیل کو دیں جو جبرائیل امین ؑ نے اللہ کے نبی ﷺ کو دیں جو ہمارے پیارے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو دیں ۔
قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ(2:32)
انہوں نے عرض کیا نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں ، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے ۔ 43 حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ۔
کیا جنات غیب جانتے ہیں ؟
اللہ رب العزت نے جنات کا تذکرہ فرمایا کہ جنات بھی غیب نہیں جانتے ۔
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰي مَوْتِهٖٓ اِلَّا دَاۗبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِي الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ(34:14)
پھر جب سلیمان (علیہ السلام) پرموت کا فیصلہ نافذ کیا تو جنوں کو اس کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز اس گھن کو سوا نہ تھی جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ اس طرح جب سلیمان (علیہ السلام) گر پڑا تو جنوں پر یہ بات کھل گئی 23 کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے 24
قرآن کی اس آیت سے ثابت ہوا کہ جنات بھی غیب نہیں جانتے ۔کیونکہ غیب جاننے والا اکیلا اللہ ہے۔
اعتراضات اور انکے جوابات :
نوٹ: مین انشاء اللہ تمام معترض حضرات کے اعتراضات کو اللہ کے فضل سے کھول کر بیان کرونگا لیکن ۔ جو جو لوگ اوپر کی تمام آیات کا انکار صرف ضد اور اناء کی وجہ سے کر رہے ہیں ۔ انکو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ کہ کہیں اللہ کی آیات کے انکار کے جرم میں قیامت کو مارے نہ جائیں ۔قیامت کہ دن اللہ کے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ شکایت کریں گے کہ اے اللہ میری قوم نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا ۔
وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا(25:30)
اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھ۔۔۔۔ا۔
قرآن کی اس آیت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ اور باقی انبیاء غیب جانتے ہیں حالانکہ یہ اوپر بیان کی گئی قرآنی آیت کی صریح خلاف ہے ۔ تو اللہ کی کتاب تو لاریب ہے جو غلطی سے پاک ہے پھر اللہ رب العزت نے یہ گارنٹی بھی دی کہ قرآن میں کوئی ایک آیت دوسرے کے خلاف نہیں ہوتی ۔
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا(4:82)
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی ۔
تو آئیے غور کرتے ہیں ۔
پہلی دلیل :
مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْبِ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِھٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِھٖ ۚ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌ(3:179)
اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو ۔ 125 وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔ مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کر دے۔126 غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے، لہٰذا ﴿ امورِ غیب کے بارے میں﴾ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو ۔ اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔
اللہ رب العزت نے سمجھنے والوں کے لیے واضع طور پر لکھا ۔ لِيُطْلِعَكُمْ (تمھیں مطلع کریں ۔) یہاں اللہ رب العالمین فرماتے ہیں ہم ہر کسی کو غیب کی باتیں نہیں بتاتے (وحی کے ذریعے) مگر اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتے ہیں منتخب کرتاےہیں(کہ انکو وحی کے ذریعے کچھ غیب کی باتیں بتائیں)۔۔ ۔سنیئے یہ آیات غیب انبیاء کے غیب پر نہیں دلیل نہیں بلکہ اسکی نفی ہے ۔ کیونکہ اللہ نے یہاں صاف صاف بتایا کہ اپنے رسولوں کو ہم ہی مطلع کرتے ہیں (اطلاع دیتےہیں) غیب کی باتوں کے بارے ۔ مطلب کہ وہ غیب نہیں جانتے ۔ اور غیب کی باتیں انہیں ہم بتاتے ہیں ۔ اور یہی بات قرآن حکیم نے کئی جگہ ارشاد فرمایا ۔
(اے محمد) ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں، ورنہ تم اس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے، 43 اور نہ تم اس وقت حاضر تھے جب ان کے درمیان جھگڑا برپا تھا۔(3:44)
اور ایک بات مجھے پتہ ہے اعتراض آئےگا کہ وحی کے ذریعے اللہ پاک بتائے گا یہ کہاں ہے تو لیجئیے۔
قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ ۭقُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ(6:50)
اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ان سے کہو، “میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ 31 پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ 32 کیا تم غور نہیں کرتے ؟ ؏۔
دوسری دلیل :
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًاۙ ۙ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا(72:26،27)
وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے۔
یہ آیت بھی بالکل اسی معنی میں ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے بالکل اس سے پچھلی آیت پڑھیے ۔
قُلْ اِنْ اَدْرِيْٓ اَقَرِيْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ يَجْعَلُ لَهٗ رَبِّيْٓ اَمَدً(72:25)
کہہ دیجئے مجھے معلوم نہیں کہ جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لئے دوری کی مدت مقرر کرے گ
تو یہاں سے بھی واضع ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ غیب نہیں جانتے بلکہ اللہ جانتا ہے اور نبی ﷺ جو بھی غیب کی بات بتاتے وہ اللہ کی وحی ہوتی کیونکہ اللہ کہ نبی ﷺ اپنی خواہش سے نہیں بولتے تھے۔ بلکہ جو ان پر وحی کی جاتی
۔
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى۔ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى(53:3،4)
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْهِمْ نَارًا ۭ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِيْزًا حَكِيْمًا(4:56)
جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کر دیا انہیں بایقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں ، اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے ۔
لوگو اللہ کا واسطہ قرآن کی آیات کو جب کہ تمھیں سمجھ آجائیں نہ جھٹلانا
علم غیب کا مسئلہ اآج کل کا ایک بہت اہم اور متنازعہ ترین مسئلہ بن گیا ہے ۔میں شکر گزار ہوں اس کریم رب کا جس کی تو فیق سے اآج میں اس موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں اللہ سے دعا ہے کہ الٰہ العالمین مجھے حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور میری خطائو ں اور لغزشوں کو درگزر فرمائے ۔ آمین
نوٹ:احباب سے گزارش ہے کہ ایک بات یاد رکھیں کہ عالم الغیب اور غیب کی خبر دینے والے میں بہت بڑا فرق ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے کہ اگر آپکو کوئی بندہ کوئی ایسی خبر دے جو آپ نہیں جانتے تو یہ بات کوئی بعید نہیں ہے اور اس طرح کہ جب کوئی آپ کو ایسی خبر دے جس سے آپ ناواقف ہیں تو آپ اس سے عالم الغیب نہیں ہونگے۔ اللہ کا نبیﷺ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ اللہ رب العزت عالم الغیوب ہیں اور اللہ رب العزت غیب کی خبریں نبیﷺ کو بذریعہ وحی دیتے اور اللہ کے نبی جناب محمد ﷺ انھیں ہم تک پنہچاتے۔ وضاحت کے لیے قراآن کی آیات ملاحظہ فرمائیں۔
(اے محمد) ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں، ورنہ تم اس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے، 43 اور نہ تم اس وقت حاضر تھے جب ان کے درمیان جھگڑا برپا تھا۔(3:44)
قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ ۭقُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ(6:50)
اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ان سے کہو، “میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ 31 پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ 32 کیا تم غور نہیں کرتے ؟ ؏
غیب کا جاننے والا اکیلا اللہ ہے اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا مگر جس کو اللہ غیب کی کوئی بات بذریعہ وحی بتا دے۔یہاں رب کائنات فرماتے ہیں۔
کہ غیب کی کنجیاں صرف اللہ کے پاس ہیں اس کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا اور وہ زمین و زمن ، آسمان اور کائنات کے ذرے ذرے کا جاننے والا ہے۔
وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ(6:59)
اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ بحر و بر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو ۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو ۔ خشک و تر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔
وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ۭ وَيَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ ڛ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۭوَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۭ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۭوَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ(6:73)
وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے ۔ 46 اور جس دن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اسی دن وہ ہو جائے گا ۔ اس کا ارشاد عین حق ہے ۔ اور جس روز صور پھونکا جائیگا 47 اس روز بادشاہی اسی کی ہوگی،48 وہ غیب اور شہادت 49 ہر چیز کا عالم ہے اور دانا اور باخبر ہے۔
قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۭوَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْر ِ ٻ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ ڔ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ(7:188)
اے محمد، ان سے کہو کہ میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا ۔ میں 145 تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں ۔
مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی جناب محمد الرسول اللہﷺ بھی غیب نہیں جانتے مگر جو اللہ وحی کر دے ۔ ایک اعتراض یہاں رفو کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ لوگ اللہ کے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ کو غیب دان ثابت کر کہ اللہ کی صفات میں شامل کر کے غلو کرتے ہیں اللہ ہم سب کو معاف فرمائے ۔ اور وہ اس کو باعث ثواب سمجھتے ہیں اور ان سے دلائل مانگے جائیں تو کہتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ نے بہت سی غیب کی خبریں دیں جیسے قیامت کی نشانیاں وغیرہ ۔ تو ان سے گزارش ہے کہ بھائی قرآن سے اپنے عقیدے کی اصلاح کریں کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ وہی باتیں بتاتے ہیں غیب کی جو ہم (اللہ) ان پر وحی کرتے ہیں ۔ تومزید قرآنی آیات پر غور فرمائیں ۔
اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ(9:78)
کیا یہ لوگ جانتے نہیں ہیں کہ اللہ کو ان کے مخفی راز اور ان کی پوشیدہ سرگوشیاں تک معلوم ہیں اور وہ تمام غیب کی باتوں سے پوری طرح باخبر ہے؟
وَيَقُوْلُوْنَ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۚ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوْا ۚ اِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ(10:20)اور یہ جو وہ کہتے ہیں کہ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی، 27 تو ان سے کہو غیب کا مالک و مختار تو اللہ ہی ہے، اچھا، انتظار کرو ، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔
وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ اللّٰهُ خَيْرًا ۭ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ښ اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ(11:31)
اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعوٰی ہے کہ میں فرشتہ ہوں ۔ 37 اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی ۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے واضع الفاظ میں بتایا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب جاننے والا نہیں ۔ اب بھی جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی ولی یا نبی غیب جانتا ہے تو وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتا ہے اسکو اللہ کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ یہ بات یاد رکھیے کہ قرآن کا انکار کفر ہے ۔آئیے قرآن کی روشنی میں اپنا عقیدہ بنائیے قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے سوا آسمان اور زمین غرض ساری کائنات کا غیب جاننے والا کوئی نہیں ہے ۔
اللہ رب العزت نے یہاں سورۃ یوسف میں بھی بتایا کہ اے نبیﷺ آپ کو ہم نے یوسف کا اور اسکے بھائیوں کا حال سنایا ورنہ تم اس سے پہلے اس کی خبر نہیں رکھتے تھے ۔
میرے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ شان والے ہیں سارے انبیاء شان والے ہیں لیکن اللہ کی صفت ہے غیب کا جاننا اس میں کوئی شریک نہیں ۔ قرآن کی اگلی آیت سے پہلے ذرا ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں
شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات ؎
ہم مسلمانوں میں ایک مغالطہ پایا جاتا ہے کہ شاید نبی ﷺ کےعلم غیب کا انکار نبیﷺ سے دشمنی /بغض و عناد معاذاللہ
اللہ کے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے کہ غلو سے بچو کیونکہ پچھلی قومیں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں۔
مسلم 6784سنن نسائی 3075
مثال 1:اس حدیث کی رو سے مثال عرض کرتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ سے محبت کیجئیے جو نبی کریم ﷺ سے محبت نہیں کرتا اللہ کی قسم وہ مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ لیکن نبی ﷺ سے محبت اس طرح کیجئے جس طرح اللہ اور اللہ کے نبیﷺ نے حکم دیا اگر ہم نے غلو کیا تو ہم بھی ہلاک ہوجائینگے ۔ عیسائیوں کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ ہر مسلمان اس بات سے متفق ہے کہ جو شخص عیٰسیؑ کو اللہ کا بیٹا مانتا ہے وہ کافر ہے لیکن !
یہاں میرا ایک سوال ہے کہ کیا عیسائیوں نے نبی عیسیؑ کو اللہ کا بیٹا نفرت کی وجہ سے قرار دیا؟ ۔۔۔۔نہیں ۔ عیسائیوں نے عیسیؑ سے محبت کی لیکن اتنا محبت کی کہ غلو کر بیٹھے اور عیسیؑ کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ معاذاللہ ۔۔۔۔اللہ پاک ہے ان کے شرک سے جو وہ کرتے ہیں۔ ۔۔لیکن وہ غلو کر کے دنیا و آخرت میں ہلاک ہوگئے۔
دیکھئیے اللہ رب العزت سب سے بلند ہے ۔ اللہ بزرگ و برتر ہے اللہ عظیم ہے مجھے قرآن کی ایک آیت یاد آتی ہے جو اس مثال سے پہلے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ قرآن میں فرماتے ہیں لوگو تم نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کرنے کا حق تھا ۔
سورۃ الحج 74
دیکھئیے ہم نبی کریم ﷺ کے بارے میں اتنا حساس ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے بارے میں اگر کوئی قرآن سے بھی بیان کر دے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ اللہ کے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ غیب نہیں جانتے تو ہم اللہ کی واضع آیات کا انکار کر جاتے ہیں لیکن اللہ کے بارے میں بے فکر ی سے جس کو مرضی آئے اللہ کی صفات میں شریک کر دیتے ہیں کیا میرے اللہ کی عزت کی کوئی چادر نہیں؟ کیا میرے اللہ کے اپنے اختیارات نہیں؟ کیا رب کائنات نے اپنے سارے اختیارات دنیا میں بانٹ دیے ؟ ۔۔۔۔۔نہیں میرا رب بہت بلند ہے ۔۔۔ اس شرک سے جو لوگ اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں ۔۔۔
مثال 2 : دیکھئیے اللہ کے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ شافعی محشر ہیں ۔ ہاں ہیں نا۔ جی اب اگر ۔۔میں یا کوئی اور اللہ کے نبی جناب موسیؑ کے بارے میں کہے کہ
میں مانتا ہوں کہ جناب محمدﷺ شافع محشر ہیں اور رحمۃ اللعالمین ہیں لیکن ۔۔ موسیؑ بھی رحمۃ اللعالمین اور شافعی محشر ہیں ،
نوٹ: (کل کو کوئی میری کتاب کا حوالہ دے کر یہ نہ کہے کہ میں نے موسیٰؑ کو رحمۃ اللعالمین کہا ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا میں ایک مثال دے رہا ہوں سمجھانے کیلئیے )۔
دیکھئیے اگر کوئی یہ جملہ کہے کہ موسیٰؑ بھی شافعی محشر ہیں حالانکہ اس نے نبی ﷺ کے رحمۃ اللعالمین ہونے کا انکار نہیں کیا پھر بھی وہ گستاخ رسول ؐ کہلائے گا کیوں؟
کیونکہ اس نے اللہ کے نبی جناب محمد الرسول ﷺ کی شان موسیؑ کو دی ۔ بالکل اسی طرح جیسے نبی کریم ﷺ کی شان موٰسی ؑ کو دینے سے نبی کریم ﷺ کی گستاخی ہے ۔
اسی طرح میرے رب العزت کی شان کسی نبی یا ولی یا کسی بھی ہستی کو دینا شرک ہے ۔ اور اللہ کی قسم میں یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا اللہ فرماتے ہیں
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ(27:65)
ان سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا ۔ 83 اور وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے۔
میں نے اللہ رب العزت کے فضل سے دعویٰ کیا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب کا جاننے والا نہیں ۔جس کے لیے میں نے بہت سی مثالیں قرآن و حدیث میں سے دیں لیکن اب میں اللہ کی مخلوقات میں سے بتاوں گا کہ کیسے اللہ کے سوا کوئ غیب نہیں جانتا ۔
کیا اللہ کے نبی غیب جانتے ہیں؟
اللہ پاک نے پورا دین کھول کر بیان کیا مجھے اللہ بزرگ برتر کی قسم اللہ نے پورا توحید کما حقہ بیان کردیا ہے ۔ اللہ پاک قرآن میں ذکر کرتے ہیں اپنے تمام انبیاء کا کہ ہم(اللہ) تمام پیغمبروں کو قیامت کے دن اکٹھا کریں گے ۔ اور ان سے جو سوال ہونا ہے اور جو انھوں نے جواب دینا ہے اللہ نے اپنی لاریب کتاب میں بیان فرما دیا ہے ۔
لوگو ! جو اللہ کی آیات کا انکار کریگا بے شک اس کا ٹھکانہ جہنم ہے تعصبات بغض و عناد کی جڑیں کاٹ کر اللہ کے لیے کتاب اللہ کی طرف لوٹ آئو۔
يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ(5:109)
جس روز 122 اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ، 123 تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں ، 124 آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں ۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیھم السلام بھی غیب نہیں جانتے۔ آئیے کچھ انبیاء کا علیحدہ ذکر کرتے ہیں ۔
کیا آدم ؑ غیب جانتے تھے ؟
قرآن آدم ؑ کا واقعہ بیان کرتا ہے اللہ فرماتے ہیں آدم ؑ اور حوا ؑ کا ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گیا۔ اگر آدم ؑ غیب جانتے ہوتے تو کبھی پھل نہ کھاتے جس سے انکا ستر کھل جاتا۔
فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ۭوَنَادٰىهُمَا رَبُّهُمَآ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ لَّكُمَآ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ(7:22)
اس طرح دھوکا دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پر لے آیا۔ آخرِکار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنّت کے پتّوں سے ڈھانکنے لگے۔
تب ان کے رب نے انہیں پکارا کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟
ایک اور جگہ بھی قرآن یہ واقعہ بیان کرتا ہے
فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى(20:121)
آخر کار دونوں﴿میاں بیوی﴾ اس درخت کا پھل کھاگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فورا ہی ان کے ستر ایک دوسرے کے آگے کھل گئے اور لگے دونوں اپنے آپ کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے۔ 101 آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ راست سے بھٹک گیا۔
کیا نوحؑ غیب جانتے تھے؟
میرے رب العالمین حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ قرآن میں بیان فرماتے ہیں۔
وَهِىَ تَجْرِيْ بِهِمْ فِيْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ ۣ وَنَادٰي نُوْحُۨ ابْنَهٗ وَكَانَ فِيْ مَعْزِلٍ يّٰبُنَيَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَلَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِيْن(11:42)
قَالَ سَاٰوِيْٓ اِلٰي جَبَلٍ يَّعْصِمُنِيْ مِنَ الْمَاۗءِ ۭ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنََ(11:43)
کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی ۔ نوح کا بیٹا دور فاصلے پر تھا۔ نوح نے پکار کر کہا بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ، کافروں کے ساتھ نہ رہ۔
اس نے پلٹ کر جواب دیا میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔“ نوح نے کہا ” آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے۔“ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔
پھر نوح علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی
وَنَادٰي نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِيْ مِنْ اَهْلِيْ وَاِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِيْنَ(11:45)
نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے، یقیناً تیرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے
پھر اللہ کا جواب سنئیے اللہ کی قسم اگر نوح علیہ السلام غیب جانتے ہوتے تو ایسی بات نہ کہتے جن کا ان کو علم نہ تھا۔ اور قرآن بولتا ہے مجھے اللہ کی قسم اللہ کا قرآن بھی سچا اللہ کا نبی نوح علیہ السلام بھی سچا تو پھر کیوں سنیے قرآن کہتا ہے اللہ " اے میرے ربّ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں ۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔"
قَالَ يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ۚ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ڶ فَلَا تَسْـــَٔـلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنِّىْٓ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَقَالَ رَبِّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـــَٔـلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ ۭ وَاِلَّا تَغْفِرْ لِيْ وَتَرْحَمْنِيْٓ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ۔(11:46،47)
جواب میں ارشاد ہوا ” اے نوح ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے49، لہٰذا تو اس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے ۔ نوح نے فوراً عرض کیا اے میرے ربّ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں ۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔
لوگو ! غیب صرف میرا اکیلا رب جانتا ہے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
اللہ کی قسم لوگو ! اگر نوح علیہ السلام غیب جانتے ہوتے اور جانتے ہوتے کہ انکا بیٹا بھی غرق ہونے والوں میں ہوجائیگا تو کبھی نہ فرماتے!
قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِيْ كَذَّبُوْنِ۔ فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَّنَجِّـنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ
آپ نے کہا اے میرے پروردگار! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا۔ پس تو مجھ میں اور ان میں کوئی قطعی فیصلہ کردے اور مجھے اور میرے باایمان ساتھیوں کو نجات دے۔
کیا عزیر ؑ غیب جانتے تھے؟
اللہ رب العزت نے عزیر ؑ اور بستی والوں کا واقعہ یوں بیان فرمایا۔
اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَةٍ وَّهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا ۚ قَالَ اَنّٰى يُـحْيٖ ھٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَـةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ ۭ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۭ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۭ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَـنَّهْ ۚ وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْــمًا ۭ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(2:259)
یا پھر مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو ، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا، جو اپنی چھاتیوں پر اوندھی گری پڑی تھی۔ 293 اس نے کہا: یہ آبادی، جو ہلاک ہوچکی ہے، اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا ؟ 294 اس پر اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا ۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا: بتاؤ ، کتنی مدّت پڑے رہے ہو؟ اس نے کہا: ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا۔ فرمایا: تم پر سو برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں ۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیّر نہیں آیا ہے ۔ دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو ﴿کہ اسکا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے ﴾ ۔ اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں 295 ۔ پھر دیکھو کے ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں ۔ اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایاں ہوگئی ، تو اس نے کہا میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ غیب کا جاننے والا اکیلا اللہ رب العالمین ہے۔
کیا اصحاب کہف غیب جانتے تھے؟
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اصحاب کہف کا تذکرہ کیا کہ وہ تین سو نو 309 سال تک سوئے رہے ۔
وَلَبِثُوْا فِيْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا(18:25)
اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور ﴿کچھ لوگ مدت کے شمار میں﴾ 9 سال اور بڑھ گئے ہیں۔
پھر اللہ نے انکو اٹھایا ااور پوچھا کہ تم کتنی دیر حالت نیند میں رہے کہنے لگے ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ ۔ یعنی اصحاب کہف کو اپنی بھی خبر نہیں تھی ۔ یہاں یہ ثابت ہوا کہ اصحاب کہف بھی غیب نہیں جانتے تھے ۔
وَكَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ لِيَتَسَاۗءَلُوْا بَيْنَهُمْ ۭ قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۭ قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۭ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ ۭ فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖٓ اِلَى الْمَدِيْنَةِ فَلْيَنْظُرْ اَيُّهَآ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْيَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا(18:19)
اسی طرح ہم نے انہیں جگا کر اٹھا دیا کہ آپس میں پوچھ گچھ کرلیں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ کیوں بھئی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم کہنے لگے کہ تمہارے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم اللہ تعالٰی ہی کو ہے اب تم اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ چاندی دے کر شہر بھیجو وہ خوب دیکھ بھال لے کہ شہر کا کونسا کھانا پاکیزہ تر ہے پھر اسی میں سے تمہارے کھانے کے لئے لے آئے، اور وہ بہت احتیاط اور نرمی برتے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے
کیا یوسف ؑ غیب جانتے تھے؟
اللہ رب العزت قرآن میں یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہیں ۔
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۭ قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(12:23)
اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے، یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازہ بند کر کے کہنے لگی لو آجاؤ یوسف نے کہا اللہ کی پناہ! وہ میرا رب، مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے۔ بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا۔
یہاں اللہ یوسف ؑ کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ یوسف علیۃ السلام کو عورت نے دعوت گناہ دی سات دروازوں میں بلایا ۔
لوگو! اللہ کی قسم اگر میرے یوسف علیہ السلام جانتے ہوتے کہ عورت دعوتِ گناہ دے گی تو میرا ایمان ہے کہ اللہ کی قسم یوسف علیہ السلام چل کے وہاں نہ جاتے ۔ اگر یوسف علیہ السلام چل کے گئے لوگو ماننا پڑے گا ۔
غیب جاننے والا اکیلا رب ہے اس کے سوا کوئی نہیں
قرآن کہتا ہے۔
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ(27:65)
کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھ کھڑے کئے جائیں گے۔
کیا ابراھیم ؑ غیب جانتے تھے؟
المختصر بات کر رہا ہوں اس بات کے پیش نظر کے کتاب لمبی ہوگئی تو پڑھنے والوں کو مشکل ہوگی ۔قرآن کہتا ہے ۔
فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ(37:103)
آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا۔
لوگو ! میرا سوال ہے اگر ابراہیم علیہ السلام کو پتا تھا اور وہ غیب جانتے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ اسماعیل ؑ کی جگہ مینڈھا ذبح ہوگا تو پھر مجھے رب بزرگ برتر کی قسم یہ ایک کھیل تماشا تو بن سکتا ہے ۔ امتحان نہیں ہو سکتا ۔ اگر امتحان تھا اور بے شک امتحان اس وقت بنے گا جب یہ مان لیا جائے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو معلو م نہیں تھا ۔ اگر خلیل اللہ کو معلوم نہیں تھا لوگو پھر اللہ کی آیتوں کی تکذیب نہ کیجئیے مانئیے کہ
غیب کا جاننے والا اکیلا واحد و یکتا بزرگ و برتر ،مالک کائنات ، خالق کائنات ہے اسکے سوا کئی غیب جاننے والا نہیں۔
کیا یعقوب ؑ غیب جانتے تھے؟
المختصر ! اگر یعقوب علیہ السلام غیب جانتے ہوتے تو یوسف علیہ السلام (عزیز مصر) کہ غم میں اتنا نہ روتے کے انکی آنکھوں کی بینائی چلی جاتی ۔
کیا امام الانبیاء غیب جانتے تھے؟
قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ ۭقُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ(6:50)
اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ان سے کہو، “میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ 31 پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ 32 کیا تم غور نہیں کرتے ؟ ؏
قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۭوَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْر ِ ٻ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ ڔ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ(7:188)
اے محمد، ان سے کہو کہ میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا ۔ میں 145 تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں ۔
کیا عمر ؓغیب جانتے تھے؟
اگر عمر رضی اللہ عنہ غیب جانتے ہوتے تو اپنے قاتل کو پکڑوا لیتے کیونکہ اگر انسان کو معلوم ہو کے اسے قتل کیا جائے گا یعنی خود کو جان بوجھ کر قتل کروانا خود کشی ہے اور وہ حرام ہے ۔
کیا حسن ؓ غیب جانتے تھے؟
حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دے کر شہید کیا گیا ۔ لوگو ! اگر حسن رضی اللہ عنہ غیب جانتے تھے تو !
میرا سوال ہے کوئی حل کر دو کہ اگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ کھانے میں زہر ہے تو زہرآلود کھانا کھایا کیوں؟ کیونکہ اگر پتا ہو کہ کھانے میں زہر ہے اور زہر آلود کھانا جان بوجھ کر کھایا جائے تو یہ خود کشی ہوتی ہے ۔
میرا ایمان ہے میرے حسن رضی اللہ عنہ نے شہید ہیں ۔ اور یہ اس وقت مانا جائیگا جب عقیدہ ہو کہ اللہ رب العالمین کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا ۔
کیا فرشتے غیب جانتے ہیں ؟
اللہ رب العزت قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان فرماتے ہیں ۔ اللہ فرماتے ہیں جب ہم نے آدم علیہ السلام کو کچھ نام سکھائے پھر فرشتوں سے پوچھا کہ ان ان چیزوں کے نام بتائو اگر تم سچے ہو ۔ فرشتوں نے جواب دیا اللہ ہم نہیں جانتے ہم تو بس وہی جانتے ہیں جو تو نے ہمیں بتایا۔ اس قرآن کی آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتے بھی غیب نہیں جانتے ۔ ہاں اللہ کوئی غیب کی بات انکو بتا دے تو وہ اللہ رب ہے ۔ جیسا کہ بہت سی غیب کی خبریں اللہ نے جبرائیل کو دیں جو جبرائیل امین ؑ نے اللہ کے نبی ﷺ کو دیں جو ہمارے پیارے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو دیں ۔
قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ(2:32)
انہوں نے عرض کیا نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں ، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے ۔ 43 حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ۔
کیا جنات غیب جانتے ہیں ؟
اللہ رب العزت نے جنات کا تذکرہ فرمایا کہ جنات بھی غیب نہیں جانتے ۔
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰي مَوْتِهٖٓ اِلَّا دَاۗبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِي الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ(34:14)
پھر جب سلیمان (علیہ السلام) پرموت کا فیصلہ نافذ کیا تو جنوں کو اس کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز اس گھن کو سوا نہ تھی جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ اس طرح جب سلیمان (علیہ السلام) گر پڑا تو جنوں پر یہ بات کھل گئی 23 کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے 24
قرآن کی اس آیت سے ثابت ہوا کہ جنات بھی غیب نہیں جانتے ۔کیونکہ غیب جاننے والا اکیلا اللہ ہے۔
اعتراضات اور انکے جوابات :
نوٹ: مین انشاء اللہ تمام معترض حضرات کے اعتراضات کو اللہ کے فضل سے کھول کر بیان کرونگا لیکن ۔ جو جو لوگ اوپر کی تمام آیات کا انکار صرف ضد اور اناء کی وجہ سے کر رہے ہیں ۔ انکو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ کہ کہیں اللہ کی آیات کے انکار کے جرم میں قیامت کو مارے نہ جائیں ۔قیامت کہ دن اللہ کے نبی جناب محمد الرسول اللہ ﷺ شکایت کریں گے کہ اے اللہ میری قوم نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا ۔
وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا(25:30)
اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھ۔۔۔۔ا۔
قرآن کی اس آیت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ اور باقی انبیاء غیب جانتے ہیں حالانکہ یہ اوپر بیان کی گئی قرآنی آیت کی صریح خلاف ہے ۔ تو اللہ کی کتاب تو لاریب ہے جو غلطی سے پاک ہے پھر اللہ رب العزت نے یہ گارنٹی بھی دی کہ قرآن میں کوئی ایک آیت دوسرے کے خلاف نہیں ہوتی ۔
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا(4:82)
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی ۔
تو آئیے غور کرتے ہیں ۔
پہلی دلیل :
مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْبِ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِھٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِھٖ ۚ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌ(3:179)
اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو ۔ 125 وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔ مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کر دے۔126 غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے، لہٰذا ﴿ امورِ غیب کے بارے میں﴾ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو ۔ اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔
اللہ رب العزت نے سمجھنے والوں کے لیے واضع طور پر لکھا ۔ لِيُطْلِعَكُمْ (تمھیں مطلع کریں ۔) یہاں اللہ رب العالمین فرماتے ہیں ہم ہر کسی کو غیب کی باتیں نہیں بتاتے (وحی کے ذریعے) مگر اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتے ہیں منتخب کرتاےہیں(کہ انکو وحی کے ذریعے کچھ غیب کی باتیں بتائیں)۔۔ ۔سنیئے یہ آیات غیب انبیاء کے غیب پر نہیں دلیل نہیں بلکہ اسکی نفی ہے ۔ کیونکہ اللہ نے یہاں صاف صاف بتایا کہ اپنے رسولوں کو ہم ہی مطلع کرتے ہیں (اطلاع دیتےہیں) غیب کی باتوں کے بارے ۔ مطلب کہ وہ غیب نہیں جانتے ۔ اور غیب کی باتیں انہیں ہم بتاتے ہیں ۔ اور یہی بات قرآن حکیم نے کئی جگہ ارشاد فرمایا ۔
(اے محمد) ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں، ورنہ تم اس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے، 43 اور نہ تم اس وقت حاضر تھے جب ان کے درمیان جھگڑا برپا تھا۔(3:44)
اور ایک بات مجھے پتہ ہے اعتراض آئےگا کہ وحی کے ذریعے اللہ پاک بتائے گا یہ کہاں ہے تو لیجئیے۔
قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ ۭقُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ(6:50)
اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ان سے کہو، “میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ 31 پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ 32 کیا تم غور نہیں کرتے ؟ ؏۔
دوسری دلیل :
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًاۙ ۙ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا(72:26،27)
وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے۔
یہ آیت بھی بالکل اسی معنی میں ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے بالکل اس سے پچھلی آیت پڑھیے ۔
قُلْ اِنْ اَدْرِيْٓ اَقَرِيْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ يَجْعَلُ لَهٗ رَبِّيْٓ اَمَدً(72:25)
کہہ دیجئے مجھے معلوم نہیں کہ جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لئے دوری کی مدت مقرر کرے گ
تو یہاں سے بھی واضع ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ غیب نہیں جانتے بلکہ اللہ جانتا ہے اور نبی ﷺ جو بھی غیب کی بات بتاتے وہ اللہ کی وحی ہوتی کیونکہ اللہ کہ نبی ﷺ اپنی خواہش سے نہیں بولتے تھے۔ بلکہ جو ان پر وحی کی جاتی
۔
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى۔ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى(53:3،4)
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔