روزہ کی اہمیت اور احکام و مسائل
رحمتوں، برکتوں، سعادتوں اور مغفرتوں کا مہینہ ہے۔ جونہی اس ماہ کا آغاز ہوتا ہے ‘‘ فتحت ابواب الجنۃ’’ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ‘‘غلقت ابواب جھنم’’ دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور ‘‘سلسلت الشیاطین’’ (سرکش) شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ [بخاری:۱۸۹۸ ، ۱۸۹۹]
اور جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے اس مہینے (رمضان) کے روزے رکھے اس کے گزشتہ تمام (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔[بخاری:۱۹۰۱]
روزہ دار ہی وہ خوش قسمت ہے جس کے لئے جنت کے آٹھ دروازوں سے ‘‘الریان’’ نامی دروازہ مخصوص ہے۔ [بخاری: ۱۸۹۶]
اس کے برعکس ایسے آدمی کی ناک خاک آلودہ قرار دی گئی جس نے (اپنی زندگی میں) رمضان کا مہینہ پایا لیکن بخشش سے محروم رہا۔[سنن ترمذی:۳۵۴۵و إسنادہ حسن]
بڑے ہی نصیب والا ہے وہ شخص جو ‘‘ ماہ رمضان’’ کی تمام تر فضیلتیں کماحقہ اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ اللھم اجعلنا منہ
احکام:چاند دیکھ کر روزہ رکھنا: نبی ﷺ نے فرمایا : چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسی کو دیکھ کر روزہ افطار کرو اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کی گنتی میں تیس دن پورے کر لو۔[بخاری:۱۹۰۹ ، مسلم:۱۰۸۱]
روزے کی نیت: اس میں کوئی شک نہیں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے لیکن نیت دل کے قصد وارادے کا نام ہے نہ کہ زبان سے خودساختہ الفاظ کا ادا کرنا جیسا کہ ‘‘وبصوم غد نویت من شھر رمضان’’ عوام میں مشہور ہے۔ حالانکہ یہ بے اصل ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
سحری کے مسائل: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کا کھانا فرق(کرتا) ہے۔[مسلم:۲۰۹۶]
مزید ارشاد فرمایا: سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ [بخاری: ۱۹۲۳ ، مسلم:۱۰۹۵]
سحری کب تک کھا سکتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور کھانے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو(تو اذان کی وجہ سے ) اسے رکھ نہ دے بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرے۔[ابو داؤد :۲۳۵۰و إسنادہ حسن]
مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ سحری کے وقت کے تعین میں لکھتے ہیں: ‘‘جب کوئی شخص اذان سنے اور اسے معلوم ہو کہ یہ اذان فجر ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ کھانے پینے سے رک جائے۔ اگر موذن طلوع فجر سے قبل اذان دے رہا ہو تو پھر رک جانا واجب نہیں بلکہ کھانا پینا جائز ہے۔ ’’[فتاوی اسلامیہ۲؍۱۷۳ طبع دارالسلام]
مذکورہ بالا حدیث نبوی کا تعلق ایسے حضرات کے لئے ہے جو دیر سے بیدار ہوں جب کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ ان متساہلین کے لئے ہے جو پیٹ بھر کر کھانے کے باوجود اذان ختم ہونے تک کھاتے رہتے ہیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)
حالتِ جنابت میں سحری کرنا: حالتِ جنابت میں سحری کھا کر بعد میں غسل کیا جا سکتا ہے۔ دیکھئے صحیح مسلم: (۱۱۰۹؍۸۰)
تقاضائے روزہ: روزے کا تقاضا ہے کہ جھوٹ ، بہتان، چغلی ، غیبت ، لڑائی، جھگڑے سے بچا جائے اور تقویٰ کو اپنایا جائے۔ نبی ﷺ سے فرمایا: کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنہیں پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام(اللیل) کرنے والے ایسے ہیں جنہیں بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ [دارمی:۲۷۲۲، إسنادہ ؍طبع دارالمعرفہ]
یعنی جو مذکورہ خرافات سے نہیں بچتا اس کا روزہ اسے کچھ فائدہ نہیں دیتا نیز آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کو نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کے بھوکے �%B
اور جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے اس مہینے (رمضان) کے روزے رکھے اس کے گزشتہ تمام (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔[بخاری:۱۹۰۱]
روزہ دار ہی وہ خوش قسمت ہے جس کے لئے جنت کے آٹھ دروازوں سے ‘‘الریان’’ نامی دروازہ مخصوص ہے۔ [بخاری: ۱۸۹۶]
اس کے برعکس ایسے آدمی کی ناک خاک آلودہ قرار دی گئی جس نے (اپنی زندگی میں) رمضان کا مہینہ پایا لیکن بخشش سے محروم رہا۔[سنن ترمذی:۳۵۴۵و إسنادہ حسن]
بڑے ہی نصیب والا ہے وہ شخص جو ‘‘ ماہ رمضان’’ کی تمام تر فضیلتیں کماحقہ اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ اللھم اجعلنا منہ
احکام:چاند دیکھ کر روزہ رکھنا: نبی ﷺ نے فرمایا : چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسی کو دیکھ کر روزہ افطار کرو اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کی گنتی میں تیس دن پورے کر لو۔[بخاری:۱۹۰۹ ، مسلم:۱۰۸۱]
روزے کی نیت: اس میں کوئی شک نہیں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے لیکن نیت دل کے قصد وارادے کا نام ہے نہ کہ زبان سے خودساختہ الفاظ کا ادا کرنا جیسا کہ ‘‘وبصوم غد نویت من شھر رمضان’’ عوام میں مشہور ہے۔ حالانکہ یہ بے اصل ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
سحری کے مسائل: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کا کھانا فرق(کرتا) ہے۔[مسلم:۲۰۹۶]
مزید ارشاد فرمایا: سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ [بخاری: ۱۹۲۳ ، مسلم:۱۰۹۵]
سحری کب تک کھا سکتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور کھانے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو(تو اذان کی وجہ سے ) اسے رکھ نہ دے بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرے۔[ابو داؤد :۲۳۵۰و إسنادہ حسن]
مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ سحری کے وقت کے تعین میں لکھتے ہیں: ‘‘جب کوئی شخص اذان سنے اور اسے معلوم ہو کہ یہ اذان فجر ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ کھانے پینے سے رک جائے۔ اگر موذن طلوع فجر سے قبل اذان دے رہا ہو تو پھر رک جانا واجب نہیں بلکہ کھانا پینا جائز ہے۔ ’’[فتاوی اسلامیہ۲؍۱۷۳ طبع دارالسلام]
مذکورہ بالا حدیث نبوی کا تعلق ایسے حضرات کے لئے ہے جو دیر سے بیدار ہوں جب کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ ان متساہلین کے لئے ہے جو پیٹ بھر کر کھانے کے باوجود اذان ختم ہونے تک کھاتے رہتے ہیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)
حالتِ جنابت میں سحری کرنا: حالتِ جنابت میں سحری کھا کر بعد میں غسل کیا جا سکتا ہے۔ دیکھئے صحیح مسلم: (۱۱۰۹؍۸۰)
تقاضائے روزہ: روزے کا تقاضا ہے کہ جھوٹ ، بہتان، چغلی ، غیبت ، لڑائی، جھگڑے سے بچا جائے اور تقویٰ کو اپنایا جائے۔ نبی ﷺ سے فرمایا: کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنہیں پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام(اللیل) کرنے والے ایسے ہیں جنہیں بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ [دارمی:۲۷۲۲، إسنادہ ؍طبع دارالمعرفہ]
یعنی جو مذکورہ خرافات سے نہیں بچتا اس کا روزہ اسے کچھ فائدہ نہیں دیتا نیز آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کو نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کے بھوکے �%B