قرانُ حدیث
تحریر: ابن جلال دین حفظ اللہ
تقلید کیا ہے ؟
◈ امام اندلس، حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) نے تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
والتقليد أن تقول بقوله، وأنت لا تعرف وجه القول، ولا معناه، وتأبى من سواه، او أن يتبين لك خطأه، فتتبعه مهابة خلافه، وانت قد بان لك فساد قوله، وهذا محرم القول به فى دين الله سبحانه وتعالى.
’’ تقلید یہ ہے کہ آپ اس (معیّن شخص) کی بات کو تسلیم کر لیں، حالانکہ آپ کو نہ اس کی دلیل معلوم ہو، نہ اس کا معنیٰ اور اس کے علاوہ آپ ہر بات کا انکار کریں۔ یا یوں سمجھیں کہ آپ پر اس (معیّن شخص) کی غلطی واضح ہو جائے تو پھر بھی اس کی مخالفت سے ڈرتے ہوئے اسی کی پیروی کرتے رہیں۔ ایسا کرنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت میں حرام ہے۔ “ [ جامع بيان العلم و فضله : 787/2 ]
◈ علامہ محمد بن احمد بن اسحاق بن خواز، ابوعبداللہ مصری مالکی کہتے ہیں :
التقليد، معناه فى الشرع الرجوع إلى قول لا حجة لقائله عليه، وهذا ممنوع فى الشريعة.
’’ تقلید کا اصطلاحی معنیٰ یہ ہے کہ ایسے قول کی طرف رجوع کیا جائے جس کی قائل کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔ شریعت اسلامیہ میں یہ کام ممنوع ہے۔ “ [ جامع بيان العلم و فضله : 992/2 ]
↰ معلوم ہوا کہ تقلید ممنوع اور خلاف شرع ہے۔ وحی اور دین کے مقابلے میں انسانوں کی آراء کو عقائد و اعمال میں دلیل بنانا اہل ایمان کا شیوا نہیں۔ اہل علم و عقل کا اس بات پر اجماع ہے کہ تقلید حرام و ممنوع ہے۔ قرآن و حدیث سے اس کی مذمت ثابت ہے، نیز ضلالت و جہالت کا دوسرا نام تقلید ہے۔
تقلید جہالت ہے :
◈ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) تقلید کرنے والوں کے بارے میں بیان فرماتے ہیں :
والمقلد لا علم له، ولم يختلفوا فى ذلك.
’’ اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مقلد جاہل مطلق ہوتا ہے۔ “ [ جامع بيان العلم و فضله : 992/2 ]
◈ شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (691-751 ھ) فرماتے ہیں :
والتقليد ليس بعلم باتفاق أهل العلم.
’’ اہل علم کا اتفاق ہے کہ تقلید، علم نہیں (جہالت ہے)۔ “ [اعلام االموقعين عن ارب العالمين : 169/2 ]
◈ نیز فرماتے ہیں :
فأنه ليس علما باتفاق الناس
’’ سب مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ تقلید علم نہیں (بلکہ جہالت ہے)۔ “ [اعلام االموقعين عن ارب العالمين : 215/2 ]
تقلید کی خرابیاں :
تقلید وہ بُری مؤنث ہے جو ہر وقت برائیاں جنم دیتی رہتی ہے۔ اس کے باعث انبیاء کرام علیہم السلام کو قتل کیا گیا، ان کی نبوت کا انکار کیا گیا اور ان کی دعوت کو جھٹلایا گیا۔ اسی تقلید نے انسانوں کو دین الہیٰ کا باغی بنا دیا، ان کو اللہ کے دین کے مقابلے میں دین ایجاد کرنے پر اکسایا، اجماع امت کا مخالف بنایا، حق کا دشمن بنایا اور سلف صالحین و ائمہ دین سے بیگانہ کیا۔ اسی تقلید نے انسانیت سے علم و عقل کا زیور چھین لیا اور وحدتِ امت کا شیرازہ بکھیرتے ہوئے اور مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق پارہ پارہ کرتے ہوئے ہر جگہ منافرت اور کدورتوں کے بیج بو دئیے۔
بقیہ تحریر
غنیۃ الطالبین اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ
تحریر: حافظ ابویحییٰ نور پوری
غنیۃ الطالبین، شیخ عبدالقادر جیلانی بن عبد اللہ بن جنکی دوست رحمہ اللہ (488-561ھ) کی تصنیف ہے۔
اس کی سند شیخ جیلانی رحمہ اللہ تک ”صحیح“ ہے، جیسا کہ :
➊ محدث عراق عمر بن علی بن عمر قزوینی رحمہ اللہ (683-750ھ) فرماتے ہیں :
وجميع مؤلفات الإمام العارف محيي الدين ابي محمد عبد القادر ابن أبى صالح بن عبد الله الجيلي، رحمه الله تعالىٰ، ككتاب (الغنية)، وغيره، مع جميع مروياته، أرويها عن أبى عبد الله محمد بن عبد الله بن عمر بن أبى القاسم، وأبي بكر بن أبى السعادات بن منصور الأنباري الخطيب، والقاضي سليمان بن حمزة بن أحمد المقدسي وغيرهم إجازة، عن أبى العباس أحمد بن يعقوب بن عبد الله المارستاني كذلك، عن الشيخ عبدالقادر الجيلي كذلك. ح، وبرواية الأول أيضا، عن نقيب النقباء متين الدين أبى القاسم هبة الله بن أحمد بن عبد القادر ابن المنصور بالله أمير المؤمنين، وغيره، إجازة أيضا، عن الشيخ عبدالقادر كذلك .
شیخ، امام عارف، محی الدین، ابومحمد، عبدالقادر بن ابوصالح بن عبد اللہ جیلی رحمہ اللہ کی تمام تصانیف، مثلا غنیۃ الطالبین وغیرہ اور ان کی تمام روایات میں درج ذیل سند سے بیان کرتا ہوں : میں اپنے اساتذہ ابوعبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن عمر بن ابوالقاسم، ابوبکر بن ابوالسعادات بن منصور انباری خطیب، قاضی سلیمان بن حمزہ بن احمد مقدسی وغیرہ سے اجازتاً بیان کرتا ہوں۔ وہ سب ابوالعباس احمد بن یعقوب بن عبد اللہ مارستانی سے اسی طرح اجازتاً بیان کرتے ہیں اور وہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ سے اسی طرح۔ دوسری سند یوں ہے کہ میرے وہی تینوں اساتذہ امیر المؤمنین نقیب النقباء متین الدین، ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن احمد بن عبدالقادر بن منصور باللہ وغیرہ سے اجازتاً روایت کرتے ہیں اور وہ شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ سے اس طرح بیان کرتے ہیں۔ “ [مشيخة القزويني، ص : 535]
اب اس سند کے تمام راویوں کی توثیق ملاحظہ فرمائیں :
(ا) محدث عراق علی بن عمر قزوینی کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الحافظ الكبير، محدث العراق، سراج الدين.
’’ آپ بہت بڑے حافظ اور عراق کے محدث تھے۔ آپ کا لقب سراج الدین تھا۔ “ [الدرر الكامنة فى أعيان المائة الثامنة : 211/4]
(ب) ابوعبداللہ محمد بن عبد اللہ بن عمر بن ابوالقاسم بغدادی (623-707ھ) کے بارے میں :
◈ خود قزوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الشيخ، العالم، رشيد الدين، المقري. [مشيخة القزويني : 294]
ان کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الإمام، العالم، المحدث، الصادق، الخير، بقية السلف، رشيد الدين، أبو عبد الله بن أبى القاسم، البغدادي، المقري، المحدث، شيخ المستنصرية. [معجم الشيوخ الكبير : 204/2]
(ج) خطیب ابوبکر انباری (628-710ھ) کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الإمام، نجم الدين . [العبر فى خبر من غبر : 26/4]
◈ حافظ صفدی رحمہ اللہ (696-764 ھ) ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
الإمام، الفاضل، نجم الدين. [الوافي بالوفيات : 99/17]
بقیہ تحریر
سیاہ خضاب کی شرعی حیثیت
تحریر: ابن الحسن محمدی
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر یا ڈاڑھی کے سفید بالوں کو رنگ دینے کا حکم فرمایا ہے۔ یہ حکم استحباب پر محمول ہے۔ حدیث میں اس استحبابی عمل کو سیاہ خضاب سے سرانجام دینے کی ممانعت آئی ہے۔ اس ممانعت کا کیاحکم ہے ؟ سیاہ خضاب حرام ہے یا خلاف ِ اولیٰ ؟ یہ مضمون اسی بارے میں مفصل تحقیق پر مبنی ہے۔ قارئین کرام اس مضمون سے کماحقہ استفادہ کرنے کے لیے بطور تمہید تین باتیں یاد رکھیں۔
ایک یہ کہ قرآن و سنت کا وہی فہم معتبر ہے جو سلف صالحین، یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے لیا جائے۔ سلف صالحین ساری امت سے بڑھ کر قرآن و سنت کو سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن و سنت کا کوئی حکم فرضیت کے لیے ہو اور سلف صالحین اسے مستحب سمجھتے رہے ہوں اور شریعت کی کوئی ممانعت حرمت کے لیے ہو اور سلف صالحین اسے خلاف اولیٰ ہی کا درجہ دیتے رہے ہوں۔ اسی طرح اس کے برعکس معاملہ ہے۔ اسی لیے بعد میں آنے والے لوگوں کا فہم دین اگر اسلاف امت کے خلاف ہو تو مردود ہو گا۔ زبانِ نبوی سے اسلافِ امت کو خیرالقرون کا جو لقب ملا ہے، اس کا یہی تقاضا ہے۔
دوسرے یہ کہ قرآن و سنت کا ہر حکم فرضیت کے لیے ہوتا ہے، الایہ کہ کسی قرینے سے اس کا استحباب پر محمول ہونا ثابت ہو جائے اور ہر ممانعت حرمت کے لیے ہوتی ہے، الایہ کہ کسی قرینے سے اس کا محض کراہت پر محمول ہونا ثابت ہو جائے۔
تیسرے یہ کہ دلیل صرف کتاب و سنت ہے، البتہ کتاب و سنت کو سمجھنے کے لیے جس طرح لغت اور دیگر علوم و فنون کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ صحابہ و تابعین کے فہم کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔ کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ نصوصِ شرعیہ کو سمجھنے کے لیے اہل لغت کی بات تو مانتا رہے، لیکن اسلاف ِ امت کے قول و فعل کو نظر انداز کرتا رہے۔ بعض لوگ لغت اور اصولِ فقہ جیسے علوم سے کتاب و سنت کے اوامر و نواہی کا درجہ متعین کرنے کو عین شریعت سمجھتے ہیں لیکن صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے فہم و عمل کے ذریعے ایسا کرنے کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہیں۔ یہ انصاف پر مبنی بات نہیں۔
اسی لیے اہل حدیث کا منہج یہ ہے کہ کتاب و سنت کے وہی معانی سمجھے جائیں جو اسلاف ِ امت نے سمجھے ہیں۔ جس حکم شرعی کو اسلاف فرض کا درجہ دیتے تھے، اس کو اہل حدیث فرض کا درجہ دیتے ہیں اور جس کو اسلاف مستحب سمجھتے تھے، اس کو اہل حدیث مستحب ہی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جس ممانعت کو اسلاف حرام کا سمجھتے تھے، اس کو اہل حدیث حرام ہی قرار دیتے ہیں اور جس کو اسلاف صرف خلاف اولیٰ سمجھتے تھے، اس پر اہل حدیث بھی خلاف ِ اولیٰ ہی کا حکم لگاتے ہیں۔ اہل حق نہ تو سلف سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں، نہ ایک قدم پیچھے رہتے ہیں۔ یہی مسلک اہل حدیث ہے۔
اس تمہیدکے بعد ہمارے لیے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شریعت اسلامیہ میں سیاہ خضاب لگانے کی گنجائش موجود ہے۔ اس بارے میں ممانعت حرمت پر دلالت نہیں کرتی۔ اسلاف امت کا فہم و عمل یہی بتاتا ہے۔
بقیہ تحریر
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کچھ روایات کی تحقیق
تحریر: ابوعبداللہ صارم
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے کچھ روایات عام طور پر سنی سنائی جاتی ہیں، ان کی تحقیق پیش خدمت ہے :
روایت نمبر ➊
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله وكل بقبري ملكا أعطاه أسماع الخلائق، فلا يصلي على أحد إلى يوم القيامة، إلا بلغني باسمه واسم أبيه ؛ هذا فلان بن فلان، قد صلى عليك.
”اللہ تعالیٰ میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عطا کی گئی ہو گی۔ روز قیامت تک جو شخص بھی مجھ پر درور پڑے گا، وہ فرشتہ درود پڑھنے والے اور اس کے والد کا نام مجھ تک پہنچائے گا اور عرض کرے گا : اللہ کے رسول ! فلاں کے بیٹے فلاں نے آپ پر درود بھیجا ہے۔“ [مسند البزار : 254/4، ح : 1425، التاريخ الكبير للبخاري : 416/6، مسند الحارث : 962/2، ح : 1063، الترغيب لابي القاسم التيمي : 319/2، ح : 1671]
ابوالشیخ ابن حیان اصبہانی [العظمة : 263/2] اور امام طبرانی [المعجم الكبير، جلاء الافهام لابن القيم، ص : 84، مجمع الزوائد للهيثمي : 162/10، الضعفاء الكبير للعقيلي : 249/3] کے بیان کردہ الفاظ یہ ہیں :
إن لله ملكا أعطاه أسماع الخلائق كلها، وهو قائم على قبري إذا مت إلى يوم القيامة، فليس أحد من أمتي يصلي على صلاة، إلا سماه باسمه واسم أبيه، قال : يا محمد ! صلى عليك فلان بن فلان كذا وكذا، فيصلي الرب عز وجل على ذلك الرجل بكل واحدة عشرا.
اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ایسا ہے جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عنایت کی گئی ہے۔ وہ میری موت کے بعد قیامت تک میری قبر پر کھڑا رہے گا۔ میرا جو بھی امتی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا، وہ فرشتہ اس درود کو پڑھنے والے اور اس کے والد کے نام سمیت مجھ تک پہنچاتے ہوئے عرض کرے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) : فلاں بن فلاں نے آپ پر اتنا اتنا درود بھیجا ہے۔ اللہ رب العزت اس شخص پر ایک درود پڑھنے کے عوض دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔“
تبصرہ :
یہ روایت سخت ضعیف ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی عمران بن حمیری جعفی ”مجہول الحال“ ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات : 223/5] کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
اس کے بارے میں :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يتابع عليه. ”یہ منکر روایات بیان کرتا ہے۔“ [التاريخ الكبير : 416/6]
◈ امام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل ذکر نہیں کی۔
◈ علامہ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
لا یعرف . ”یہ مجہول راوی ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 236/3]
◈ حافظ منذری رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے۔ [القول البديع للسخاوي، ص : 119]
◈ حافظ ہیثمی، حافظ ذہبی پر اعتماد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وقال صاحب الميزان : لا يعرف .
”صاحب میزان الاعتدال (علامہ ذہبی رحمہ اللہ) کا کہنا ہے کہ یہ راوی مجبول ہے۔“ [مجمع الزوائد : 162/10]
علامہ عبدالروف مناوی، علامہ ہیثمی کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لم اعرفهٔ. ”میں اسے پہچان نہیں پایا۔“ [فيضں القدير : 612/2]
بقیہ تحریر
عورت بوقت ضرورت قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے
فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ
سوال : جب قربانی کا وقت ہو جائے اور گھر پر کوئی آدمی موجود نہ ہو تو اس صورت میں کیا عورت قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے ؟
جواب : ہاں اگر جانور ذبح کرنے کی دیگر شرائط پوری ہو رہی ہوں تو بوقت ضرورت عورت قربانی وغیرہ کا جانور ذبح کر سکتی ہے۔ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اس زندہ یا فوت شدہ آدمی کا نام لینا مسنون ہے جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہو۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو سکے تو نیت کر لینا ہی کافی ہے۔ اگر ذبح کرنے والا غلطی سے اصل شخص کی بجائے کسی اور کا نام لے لے تو بھی کوئی نقصان نہ ہو گا، اس لئے کہ اللہ رب العزت نیتوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ والله الموفق
عشرہ ذی الحجہ میں سر دھونا اور کنگھی کرنا
فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ
سوال : کیا عشرہ ذی الحجہ میں بالوں کو کنگھی کرنا جائز ہے ؟
جواب : ہاں احتیاط سے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں، اگر کوئی بال گر گیا تو ضرر رساں نہیں ہو گا۔ اور قربانی کا ثواب بھی کم نہ ہو گا۔ اسی طرح اگر قربانی دینے والا عمداً بال یا ناخن اتروا لے تو اس بناء پر وہ قربانی کرنا نہ چھوڑے، اسے قربانی کا اجر مکمل صورت میں ملے گا۔ ان شاء الله العزيز
قربانی کرنے والے کے لیے کنگھی کرنا
فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ
سوال : اگر عورت قربانی کرنا چاہے تو کیا وہ سر میں کنگھی نہ کرے دریں حالت اگر وہ دس دن تک ایسا نہ کرے تو اسے شدید دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جواب : سیدہ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے صحیح حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا دخلت العشر وفأراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره ولا من بشره شيئا [رواه النسائى فى كتاب الضحايا باب 1، والدارمي فى كتاب الأضاحي، باب 1 وفي رواية]
”جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی دینا چاہے تو وہ اپنے بالوں اور جسم سے کچھ نہ اکھاڑے کاٹے۔ “
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت مروی سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عن أم سلمة رضى الله عنها : أن النبى صلى الله عليه وسلم قال : إذا رأيتم هلال ذي الحجة، وأراد أحدكم أن يضحي، فليمسك عن شعره و أظفاره [رواه مسلم فى كتاب الأضاحي باب 7]
”جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے جو کوئی قربانی دینا چاہے تو اسے چاہئیے کہ وہ اپنے بالوں اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی کچھ نہ کاٹے۔ “
علماء فرماتے ہیں کہ اس سے مراد بال مونڈنا، کاٹنا، اکھاڑنا یا پاؤڈر وغیرہ سے ان کا ازالہ کرنا ہے، یہ سب کچھ منع ہے۔ اس بناء پر کنگھی کرنا یا بالوں کا سنوارنا اس ممانعت کے تحت نہیں آتا۔ اسی طرح بالوں کا دھونا وغیرہ بھی منع نہیں ہے۔ اگر بلا ارادہ کوئی بال گر جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں عورت کے لئے ضرورت کے پیش نظر بالوں میں کنگھی کرنا جائز ہے۔ قربانی نفلی ہو یا کوئی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ والله اعلم
عمرہ کرنے والے کے لئے طواف وداع اور بعد ازاں خریداری کا حکم
فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ
سوال : کیا عمرہ میں طواف وداع واجب ہے ؟ اور کیا طواف وداع کے بعد مکہ مکرمہ سے خریداری کرنا جائز ہے ؟
جواب : عمرہ میں طواف وداع کرنا واجب نہیں ہے، البتہ ایسا کرنا افضل و اولیٰ ہے۔ اگر کوئی شخص یہ طواف کئے بغیر واپس روانہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں حج کے موقعہ پر طواف وداع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق واجب ہے۔
لا ينفرن أحد حتي يكون آخر عهده بالبيت [رواه مسلم فى كتاب الحج باب 67، و أبوداؤد فى كتاب المناسك باب 48، وابن ماجة فى كتاب المناسك باب 82]
”طواف وداع کے بغیر کوئی شخص واپس نہ جائے۔ “
یہ خطاب حجاج کے لئے تھا۔
طواف وداع کے بعد تمام ضروریات زندگی کی خریداری کرنا جائز ہے، حتیٰ کہ مختصر مدت میں سامان تجارت بھی خرید سکتا ہے، اگر یہ عرصہ طویل ہو گیا ہو تو دوبارہ طواف کرے اور اگر عرف عام کے اعتبار سے عرصہ دراز نہیں ہوا تو دوبارہ طواف کرنا واجب نہیں ہو گا۔
والد کی طرف سے حج کرنا
فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ
سوال : تقریباً دس سال قبل میرے والد صاحب کا انتقال ہوا۔ وہ تمام فرائض کے پابند تھے، مگر تنگ دستی کے سبب حج بیت اللہ نہ کر سکے، پھر یوں ہوا کہ مشیت الہیٰ سے میں تدریسی امور کی سرانجام دہی کے لئے سعودی عرب آ گئی۔ یہاں آنے پر میں نے اپنی طرف سے فریضہ حج ادا کیا، اب میں اپنے فوت شدہ باپ کی طرف سے حج کرنا چاہتی ہوں کیا میں ایسا کر سکتی ہوں ؟
جواب : آپ کے لیے باپ کی طرف سے حج کرنا مشروع ہے، اس پر آپ بھی اجر و ثواب کی مستحق ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہماری کاوشوں کو قبول فرمائے اور جملہ معاملات میں آسانی پیدا فرمائے۔ آمین
کیا حج میں عورت اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلا (ظاہر) رکھ سکتی ہے ؟
فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی
سوال : عورت دوران نماز چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ تمام کی تمام واجب الستر ہے، اگر وہ دوران حج یا عام سفر میں اجنبی لوگوں کے ساتھ ہو اور ان کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرتی ہو، تو کیا اس صورت میں دوران نماز وہ اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھ سکتی ہے یا اجنبی لوگوں کی وجہ سے انہیں ڈھانپنا چاہئیے ؟ کیا اسی طرح مسجد الحرام میں اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو ڈھانپنا چاہئے یا وہ انہیں کھلا رکھ سکتی ہے ؟
جواب : آزاد عورت تمام کی تمام واجب الستر ہے۔ علماء کے صحیح ترین قول کی رو سے اس پر اجنبی لوگوں کی موجودگی میں اپنا چہرہ اور ہاتھ کھولنا حرام ہے۔ وہ حالت نماز میں ہو، حالت احترام میں ہو یا عام حالات میں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كان الركبان يمرون بنا ونحن مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فاذا حاذونا سدلت إحدانا جلبابها من رأسها على وجهها، فإذا جاوزؤنا كشفناه [سنن أبى داود وسنن ابن ماجة وأحمد]
”ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام کی حالت میں تھے۔ قافلے ہمارے پاس سے گزرتے، جب وہ ہمارے بالمقابل (سامنے) آتے تو ہم میں سے ہر ایک عورت اپنا دوپٹہ اپنے سر سے چہرے پر لٹکا لیتی اور جب وہ گزر جاتے تو ہم انہیں کھول لیتیں۔ “
جب حالت احرام کا یہ عالم ہے حالانکہ اس میں چہرہ کھلا رکھنا مطلوب ہے تو دیگر حالات میں تو یہ بطرق اولیٰ ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سے :
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ [33-الأحزاب:53]
”اور جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو تمہارے اور ان کے دلوں کی کامل پاکیزگی یہی ہے۔ “
- صفحہ اول | توحید و عقائد | مسنون نماز|اتباع سنت وترک بدعات|حسن اخلاق و معاشرت|مناقب و فضائل|غیرثابت مسائل
تحریر: ابن جلال دین حفظ اللہ
تقلید کیا ہے ؟
◈ امام اندلس، حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) نے تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
والتقليد أن تقول بقوله، وأنت لا تعرف وجه القول، ولا معناه، وتأبى من سواه، او أن يتبين لك خطأه، فتتبعه مهابة خلافه، وانت قد بان لك فساد قوله، وهذا محرم القول به فى دين الله سبحانه وتعالى.
’’ تقلید یہ ہے کہ آپ اس (معیّن شخص) کی بات کو تسلیم کر لیں، حالانکہ آپ کو نہ اس کی دلیل معلوم ہو، نہ اس کا معنیٰ اور اس کے علاوہ آپ ہر بات کا انکار کریں۔ یا یوں سمجھیں کہ آپ پر اس (معیّن شخص) کی غلطی واضح ہو جائے تو پھر بھی اس کی مخالفت سے ڈرتے ہوئے اسی کی پیروی کرتے رہیں۔ ایسا کرنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت میں حرام ہے۔ “ [ جامع بيان العلم و فضله : 787/2 ]
◈ علامہ محمد بن احمد بن اسحاق بن خواز، ابوعبداللہ مصری مالکی کہتے ہیں :
التقليد، معناه فى الشرع الرجوع إلى قول لا حجة لقائله عليه، وهذا ممنوع فى الشريعة.
’’ تقلید کا اصطلاحی معنیٰ یہ ہے کہ ایسے قول کی طرف رجوع کیا جائے جس کی قائل کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔ شریعت اسلامیہ میں یہ کام ممنوع ہے۔ “ [ جامع بيان العلم و فضله : 992/2 ]
↰ معلوم ہوا کہ تقلید ممنوع اور خلاف شرع ہے۔ وحی اور دین کے مقابلے میں انسانوں کی آراء کو عقائد و اعمال میں دلیل بنانا اہل ایمان کا شیوا نہیں۔ اہل علم و عقل کا اس بات پر اجماع ہے کہ تقلید حرام و ممنوع ہے۔ قرآن و حدیث سے اس کی مذمت ثابت ہے، نیز ضلالت و جہالت کا دوسرا نام تقلید ہے۔
تقلید جہالت ہے :
◈ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) تقلید کرنے والوں کے بارے میں بیان فرماتے ہیں :
والمقلد لا علم له، ولم يختلفوا فى ذلك.
’’ اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مقلد جاہل مطلق ہوتا ہے۔ “ [ جامع بيان العلم و فضله : 992/2 ]
◈ شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (691-751 ھ) فرماتے ہیں :
والتقليد ليس بعلم باتفاق أهل العلم.
’’ اہل علم کا اتفاق ہے کہ تقلید، علم نہیں (جہالت ہے)۔ “ [اعلام االموقعين عن ارب العالمين : 169/2 ]
◈ نیز فرماتے ہیں :
فأنه ليس علما باتفاق الناس
’’ سب مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ تقلید علم نہیں (بلکہ جہالت ہے)۔ “ [اعلام االموقعين عن ارب العالمين : 215/2 ]
تقلید کی خرابیاں :
تقلید وہ بُری مؤنث ہے جو ہر وقت برائیاں جنم دیتی رہتی ہے۔ اس کے باعث انبیاء کرام علیہم السلام کو قتل کیا گیا، ان کی نبوت کا انکار کیا گیا اور ان کی دعوت کو جھٹلایا گیا۔ اسی تقلید نے انسانوں کو دین الہیٰ کا باغی بنا دیا، ان کو اللہ کے دین کے مقابلے میں دین ایجاد کرنے پر اکسایا، اجماع امت کا مخالف بنایا، حق کا دشمن بنایا اور سلف صالحین و ائمہ دین سے بیگانہ کیا۔ اسی تقلید نے انسانیت سے علم و عقل کا زیور چھین لیا اور وحدتِ امت کا شیرازہ بکھیرتے ہوئے اور مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق پارہ پارہ کرتے ہوئے ہر جگہ منافرت اور کدورتوں کے بیج بو دئیے۔
بقیہ تحریر
غنیۃ الطالبین اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ
تحریر: حافظ ابویحییٰ نور پوری
غنیۃ الطالبین، شیخ عبدالقادر جیلانی بن عبد اللہ بن جنکی دوست رحمہ اللہ (488-561ھ) کی تصنیف ہے۔
اس کی سند شیخ جیلانی رحمہ اللہ تک ”صحیح“ ہے، جیسا کہ :
➊ محدث عراق عمر بن علی بن عمر قزوینی رحمہ اللہ (683-750ھ) فرماتے ہیں :
وجميع مؤلفات الإمام العارف محيي الدين ابي محمد عبد القادر ابن أبى صالح بن عبد الله الجيلي، رحمه الله تعالىٰ، ككتاب (الغنية)، وغيره، مع جميع مروياته، أرويها عن أبى عبد الله محمد بن عبد الله بن عمر بن أبى القاسم، وأبي بكر بن أبى السعادات بن منصور الأنباري الخطيب، والقاضي سليمان بن حمزة بن أحمد المقدسي وغيرهم إجازة، عن أبى العباس أحمد بن يعقوب بن عبد الله المارستاني كذلك، عن الشيخ عبدالقادر الجيلي كذلك. ح، وبرواية الأول أيضا، عن نقيب النقباء متين الدين أبى القاسم هبة الله بن أحمد بن عبد القادر ابن المنصور بالله أمير المؤمنين، وغيره، إجازة أيضا، عن الشيخ عبدالقادر كذلك .
شیخ، امام عارف، محی الدین، ابومحمد، عبدالقادر بن ابوصالح بن عبد اللہ جیلی رحمہ اللہ کی تمام تصانیف، مثلا غنیۃ الطالبین وغیرہ اور ان کی تمام روایات میں درج ذیل سند سے بیان کرتا ہوں : میں اپنے اساتذہ ابوعبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن عمر بن ابوالقاسم، ابوبکر بن ابوالسعادات بن منصور انباری خطیب، قاضی سلیمان بن حمزہ بن احمد مقدسی وغیرہ سے اجازتاً بیان کرتا ہوں۔ وہ سب ابوالعباس احمد بن یعقوب بن عبد اللہ مارستانی سے اسی طرح اجازتاً بیان کرتے ہیں اور وہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ سے اسی طرح۔ دوسری سند یوں ہے کہ میرے وہی تینوں اساتذہ امیر المؤمنین نقیب النقباء متین الدین، ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن احمد بن عبدالقادر بن منصور باللہ وغیرہ سے اجازتاً روایت کرتے ہیں اور وہ شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ سے اس طرح بیان کرتے ہیں۔ “ [مشيخة القزويني، ص : 535]
اب اس سند کے تمام راویوں کی توثیق ملاحظہ فرمائیں :
(ا) محدث عراق علی بن عمر قزوینی کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الحافظ الكبير، محدث العراق، سراج الدين.
’’ آپ بہت بڑے حافظ اور عراق کے محدث تھے۔ آپ کا لقب سراج الدین تھا۔ “ [الدرر الكامنة فى أعيان المائة الثامنة : 211/4]
(ب) ابوعبداللہ محمد بن عبد اللہ بن عمر بن ابوالقاسم بغدادی (623-707ھ) کے بارے میں :
◈ خود قزوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الشيخ، العالم، رشيد الدين، المقري. [مشيخة القزويني : 294]
ان کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الإمام، العالم، المحدث، الصادق، الخير، بقية السلف، رشيد الدين، أبو عبد الله بن أبى القاسم، البغدادي، المقري، المحدث، شيخ المستنصرية. [معجم الشيوخ الكبير : 204/2]
(ج) خطیب ابوبکر انباری (628-710ھ) کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الإمام، نجم الدين . [العبر فى خبر من غبر : 26/4]
◈ حافظ صفدی رحمہ اللہ (696-764 ھ) ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
الإمام، الفاضل، نجم الدين. [الوافي بالوفيات : 99/17]
بقیہ تحریر
سیاہ خضاب کی شرعی حیثیت
تحریر: ابن الحسن محمدی
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر یا ڈاڑھی کے سفید بالوں کو رنگ دینے کا حکم فرمایا ہے۔ یہ حکم استحباب پر محمول ہے۔ حدیث میں اس استحبابی عمل کو سیاہ خضاب سے سرانجام دینے کی ممانعت آئی ہے۔ اس ممانعت کا کیاحکم ہے ؟ سیاہ خضاب حرام ہے یا خلاف ِ اولیٰ ؟ یہ مضمون اسی بارے میں مفصل تحقیق پر مبنی ہے۔ قارئین کرام اس مضمون سے کماحقہ استفادہ کرنے کے لیے بطور تمہید تین باتیں یاد رکھیں۔
ایک یہ کہ قرآن و سنت کا وہی فہم معتبر ہے جو سلف صالحین، یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے لیا جائے۔ سلف صالحین ساری امت سے بڑھ کر قرآن و سنت کو سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن و سنت کا کوئی حکم فرضیت کے لیے ہو اور سلف صالحین اسے مستحب سمجھتے رہے ہوں اور شریعت کی کوئی ممانعت حرمت کے لیے ہو اور سلف صالحین اسے خلاف اولیٰ ہی کا درجہ دیتے رہے ہوں۔ اسی طرح اس کے برعکس معاملہ ہے۔ اسی لیے بعد میں آنے والے لوگوں کا فہم دین اگر اسلاف امت کے خلاف ہو تو مردود ہو گا۔ زبانِ نبوی سے اسلافِ امت کو خیرالقرون کا جو لقب ملا ہے، اس کا یہی تقاضا ہے۔
دوسرے یہ کہ قرآن و سنت کا ہر حکم فرضیت کے لیے ہوتا ہے، الایہ کہ کسی قرینے سے اس کا استحباب پر محمول ہونا ثابت ہو جائے اور ہر ممانعت حرمت کے لیے ہوتی ہے، الایہ کہ کسی قرینے سے اس کا محض کراہت پر محمول ہونا ثابت ہو جائے۔
تیسرے یہ کہ دلیل صرف کتاب و سنت ہے، البتہ کتاب و سنت کو سمجھنے کے لیے جس طرح لغت اور دیگر علوم و فنون کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ صحابہ و تابعین کے فہم کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔ کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ نصوصِ شرعیہ کو سمجھنے کے لیے اہل لغت کی بات تو مانتا رہے، لیکن اسلاف ِ امت کے قول و فعل کو نظر انداز کرتا رہے۔ بعض لوگ لغت اور اصولِ فقہ جیسے علوم سے کتاب و سنت کے اوامر و نواہی کا درجہ متعین کرنے کو عین شریعت سمجھتے ہیں لیکن صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے فہم و عمل کے ذریعے ایسا کرنے کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہیں۔ یہ انصاف پر مبنی بات نہیں۔
اسی لیے اہل حدیث کا منہج یہ ہے کہ کتاب و سنت کے وہی معانی سمجھے جائیں جو اسلاف ِ امت نے سمجھے ہیں۔ جس حکم شرعی کو اسلاف فرض کا درجہ دیتے تھے، اس کو اہل حدیث فرض کا درجہ دیتے ہیں اور جس کو اسلاف مستحب سمجھتے تھے، اس کو اہل حدیث مستحب ہی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جس ممانعت کو اسلاف حرام کا سمجھتے تھے، اس کو اہل حدیث حرام ہی قرار دیتے ہیں اور جس کو اسلاف صرف خلاف اولیٰ سمجھتے تھے، اس پر اہل حدیث بھی خلاف ِ اولیٰ ہی کا حکم لگاتے ہیں۔ اہل حق نہ تو سلف سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں، نہ ایک قدم پیچھے رہتے ہیں۔ یہی مسلک اہل حدیث ہے۔
اس تمہیدکے بعد ہمارے لیے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شریعت اسلامیہ میں سیاہ خضاب لگانے کی گنجائش موجود ہے۔ اس بارے میں ممانعت حرمت پر دلالت نہیں کرتی۔ اسلاف امت کا فہم و عمل یہی بتاتا ہے۔
بقیہ تحریر
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کچھ روایات کی تحقیق
تحریر: ابوعبداللہ صارم
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے کچھ روایات عام طور پر سنی سنائی جاتی ہیں، ان کی تحقیق پیش خدمت ہے :
روایت نمبر ➊
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله وكل بقبري ملكا أعطاه أسماع الخلائق، فلا يصلي على أحد إلى يوم القيامة، إلا بلغني باسمه واسم أبيه ؛ هذا فلان بن فلان، قد صلى عليك.
”اللہ تعالیٰ میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عطا کی گئی ہو گی۔ روز قیامت تک جو شخص بھی مجھ پر درور پڑے گا، وہ فرشتہ درود پڑھنے والے اور اس کے والد کا نام مجھ تک پہنچائے گا اور عرض کرے گا : اللہ کے رسول ! فلاں کے بیٹے فلاں نے آپ پر درود بھیجا ہے۔“ [مسند البزار : 254/4، ح : 1425، التاريخ الكبير للبخاري : 416/6، مسند الحارث : 962/2، ح : 1063، الترغيب لابي القاسم التيمي : 319/2، ح : 1671]
ابوالشیخ ابن حیان اصبہانی [العظمة : 263/2] اور امام طبرانی [المعجم الكبير، جلاء الافهام لابن القيم، ص : 84، مجمع الزوائد للهيثمي : 162/10، الضعفاء الكبير للعقيلي : 249/3] کے بیان کردہ الفاظ یہ ہیں :
إن لله ملكا أعطاه أسماع الخلائق كلها، وهو قائم على قبري إذا مت إلى يوم القيامة، فليس أحد من أمتي يصلي على صلاة، إلا سماه باسمه واسم أبيه، قال : يا محمد ! صلى عليك فلان بن فلان كذا وكذا، فيصلي الرب عز وجل على ذلك الرجل بكل واحدة عشرا.
اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ایسا ہے جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عنایت کی گئی ہے۔ وہ میری موت کے بعد قیامت تک میری قبر پر کھڑا رہے گا۔ میرا جو بھی امتی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا، وہ فرشتہ اس درود کو پڑھنے والے اور اس کے والد کے نام سمیت مجھ تک پہنچاتے ہوئے عرض کرے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) : فلاں بن فلاں نے آپ پر اتنا اتنا درود بھیجا ہے۔ اللہ رب العزت اس شخص پر ایک درود پڑھنے کے عوض دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔“
تبصرہ :
یہ روایت سخت ضعیف ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی عمران بن حمیری جعفی ”مجہول الحال“ ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات : 223/5] کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
اس کے بارے میں :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يتابع عليه. ”یہ منکر روایات بیان کرتا ہے۔“ [التاريخ الكبير : 416/6]
◈ امام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل ذکر نہیں کی۔
◈ علامہ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
لا یعرف . ”یہ مجہول راوی ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 236/3]
◈ حافظ منذری رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے۔ [القول البديع للسخاوي، ص : 119]
◈ حافظ ہیثمی، حافظ ذہبی پر اعتماد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وقال صاحب الميزان : لا يعرف .
”صاحب میزان الاعتدال (علامہ ذہبی رحمہ اللہ) کا کہنا ہے کہ یہ راوی مجبول ہے۔“ [مجمع الزوائد : 162/10]
علامہ عبدالروف مناوی، علامہ ہیثمی کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لم اعرفهٔ. ”میں اسے پہچان نہیں پایا۔“ [فيضں القدير : 612/2]
بقیہ تحریر
عورت بوقت ضرورت قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے
فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ
سوال : جب قربانی کا وقت ہو جائے اور گھر پر کوئی آدمی موجود نہ ہو تو اس صورت میں کیا عورت قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے ؟
جواب : ہاں اگر جانور ذبح کرنے کی دیگر شرائط پوری ہو رہی ہوں تو بوقت ضرورت عورت قربانی وغیرہ کا جانور ذبح کر سکتی ہے۔ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اس زندہ یا فوت شدہ آدمی کا نام لینا مسنون ہے جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہو۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو سکے تو نیت کر لینا ہی کافی ہے۔ اگر ذبح کرنے والا غلطی سے اصل شخص کی بجائے کسی اور کا نام لے لے تو بھی کوئی نقصان نہ ہو گا، اس لئے کہ اللہ رب العزت نیتوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ والله الموفق
عشرہ ذی الحجہ میں سر دھونا اور کنگھی کرنا
فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ
سوال : کیا عشرہ ذی الحجہ میں بالوں کو کنگھی کرنا جائز ہے ؟
جواب : ہاں احتیاط سے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں، اگر کوئی بال گر گیا تو ضرر رساں نہیں ہو گا۔ اور قربانی کا ثواب بھی کم نہ ہو گا۔ اسی طرح اگر قربانی دینے والا عمداً بال یا ناخن اتروا لے تو اس بناء پر وہ قربانی کرنا نہ چھوڑے، اسے قربانی کا اجر مکمل صورت میں ملے گا۔ ان شاء الله العزيز
قربانی کرنے والے کے لیے کنگھی کرنا
فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ
سوال : اگر عورت قربانی کرنا چاہے تو کیا وہ سر میں کنگھی نہ کرے دریں حالت اگر وہ دس دن تک ایسا نہ کرے تو اسے شدید دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جواب : سیدہ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے صحیح حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا دخلت العشر وفأراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره ولا من بشره شيئا [رواه النسائى فى كتاب الضحايا باب 1، والدارمي فى كتاب الأضاحي، باب 1 وفي رواية]
”جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی دینا چاہے تو وہ اپنے بالوں اور جسم سے کچھ نہ اکھاڑے کاٹے۔ “
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت مروی سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عن أم سلمة رضى الله عنها : أن النبى صلى الله عليه وسلم قال : إذا رأيتم هلال ذي الحجة، وأراد أحدكم أن يضحي، فليمسك عن شعره و أظفاره [رواه مسلم فى كتاب الأضاحي باب 7]
”جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے جو کوئی قربانی دینا چاہے تو اسے چاہئیے کہ وہ اپنے بالوں اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی کچھ نہ کاٹے۔ “
علماء فرماتے ہیں کہ اس سے مراد بال مونڈنا، کاٹنا، اکھاڑنا یا پاؤڈر وغیرہ سے ان کا ازالہ کرنا ہے، یہ سب کچھ منع ہے۔ اس بناء پر کنگھی کرنا یا بالوں کا سنوارنا اس ممانعت کے تحت نہیں آتا۔ اسی طرح بالوں کا دھونا وغیرہ بھی منع نہیں ہے۔ اگر بلا ارادہ کوئی بال گر جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں عورت کے لئے ضرورت کے پیش نظر بالوں میں کنگھی کرنا جائز ہے۔ قربانی نفلی ہو یا کوئی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ والله اعلم
عمرہ کرنے والے کے لئے طواف وداع اور بعد ازاں خریداری کا حکم
فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ
سوال : کیا عمرہ میں طواف وداع واجب ہے ؟ اور کیا طواف وداع کے بعد مکہ مکرمہ سے خریداری کرنا جائز ہے ؟
جواب : عمرہ میں طواف وداع کرنا واجب نہیں ہے، البتہ ایسا کرنا افضل و اولیٰ ہے۔ اگر کوئی شخص یہ طواف کئے بغیر واپس روانہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں حج کے موقعہ پر طواف وداع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق واجب ہے۔
لا ينفرن أحد حتي يكون آخر عهده بالبيت [رواه مسلم فى كتاب الحج باب 67، و أبوداؤد فى كتاب المناسك باب 48، وابن ماجة فى كتاب المناسك باب 82]
”طواف وداع کے بغیر کوئی شخص واپس نہ جائے۔ “
یہ خطاب حجاج کے لئے تھا۔
طواف وداع کے بعد تمام ضروریات زندگی کی خریداری کرنا جائز ہے، حتیٰ کہ مختصر مدت میں سامان تجارت بھی خرید سکتا ہے، اگر یہ عرصہ طویل ہو گیا ہو تو دوبارہ طواف کرے اور اگر عرف عام کے اعتبار سے عرصہ دراز نہیں ہوا تو دوبارہ طواف کرنا واجب نہیں ہو گا۔
والد کی طرف سے حج کرنا
فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ
سوال : تقریباً دس سال قبل میرے والد صاحب کا انتقال ہوا۔ وہ تمام فرائض کے پابند تھے، مگر تنگ دستی کے سبب حج بیت اللہ نہ کر سکے، پھر یوں ہوا کہ مشیت الہیٰ سے میں تدریسی امور کی سرانجام دہی کے لئے سعودی عرب آ گئی۔ یہاں آنے پر میں نے اپنی طرف سے فریضہ حج ادا کیا، اب میں اپنے فوت شدہ باپ کی طرف سے حج کرنا چاہتی ہوں کیا میں ایسا کر سکتی ہوں ؟
جواب : آپ کے لیے باپ کی طرف سے حج کرنا مشروع ہے، اس پر آپ بھی اجر و ثواب کی مستحق ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہماری کاوشوں کو قبول فرمائے اور جملہ معاملات میں آسانی پیدا فرمائے۔ آمین
کیا حج میں عورت اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلا (ظاہر) رکھ سکتی ہے ؟
فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی
سوال : عورت دوران نماز چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ تمام کی تمام واجب الستر ہے، اگر وہ دوران حج یا عام سفر میں اجنبی لوگوں کے ساتھ ہو اور ان کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرتی ہو، تو کیا اس صورت میں دوران نماز وہ اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھ سکتی ہے یا اجنبی لوگوں کی وجہ سے انہیں ڈھانپنا چاہئیے ؟ کیا اسی طرح مسجد الحرام میں اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو ڈھانپنا چاہئے یا وہ انہیں کھلا رکھ سکتی ہے ؟
جواب : آزاد عورت تمام کی تمام واجب الستر ہے۔ علماء کے صحیح ترین قول کی رو سے اس پر اجنبی لوگوں کی موجودگی میں اپنا چہرہ اور ہاتھ کھولنا حرام ہے۔ وہ حالت نماز میں ہو، حالت احترام میں ہو یا عام حالات میں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كان الركبان يمرون بنا ونحن مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فاذا حاذونا سدلت إحدانا جلبابها من رأسها على وجهها، فإذا جاوزؤنا كشفناه [سنن أبى داود وسنن ابن ماجة وأحمد]
”ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام کی حالت میں تھے۔ قافلے ہمارے پاس سے گزرتے، جب وہ ہمارے بالمقابل (سامنے) آتے تو ہم میں سے ہر ایک عورت اپنا دوپٹہ اپنے سر سے چہرے پر لٹکا لیتی اور جب وہ گزر جاتے تو ہم انہیں کھول لیتیں۔ “
جب حالت احرام کا یہ عالم ہے حالانکہ اس میں چہرہ کھلا رکھنا مطلوب ہے تو دیگر حالات میں تو یہ بطرق اولیٰ ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سے :
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ [33-الأحزاب:53]
”اور جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو تمہارے اور ان کے دلوں کی کامل پاکیزگی یہی ہے۔ “